ممبئی: ممبئی فسادات 93-1992 کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین کی تلاش اور انہیں معاوضہ کی ادائیگی کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حکم کے 8 ماہ بعد بھی حکومت بے عمل نظر آرہی ہے اور اس کے محکمہ قانون وعدلیہ کے پاس فی الحال گمشدہ متاثرین اور اہل خانہ کی کوئی فہرست نہیں ہے جن کی تعداد 168بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں مہاراشٹر حکومت کو سپریم کورٹ نے کئی ہدایات دیتے ہوئے کہا تھا کہ 93-1992 کے بمبئی فسادات اور دھماکوں میں لاپتہ افراد اور ان رشہ داروں کا سراغ لگائیں اور انہیں معاوضہ دیں۔
دراصل جسٹس بی این سری کرشنا کے تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کے معاملے سے متعلق ایک رٹ میں ایسے درخواست کی گئی تھی، بابری مسجد کی شہادت کے بعد دسمبر 1992اور جنوری 1993 کے دوران ممبئی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، اور ان کی تحقیقات کے لیے سری کرشنا کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس بی این کی سفارشات پر عمل درآمد کے معاملے سے متعلق ایک رٹ پٹیشن میں سری کرشنا کمیشن 1992 اور 1993 کے ممبئی فسادات کے بعد تشکیل دیا گیا، منوہر جوشی حکومت نے 12مارچ کے بم دھماکوں کو شامل کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس وکرم ناتھ، پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایک کمیٹی تشکیل دے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا سراغ لگانے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے متعلق مواد پیش کرے جو معاوضے سے محروم ہیں اور ہدایت دی کہ معاوضے اور سود کی ادائیگی کی پوری مشق نو سال کی مدت میں مکمل کی جائے۔ اس فیصلے کی تاریخ سے آٹھ مہینے گزر جانے بعد بھی حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔کیونکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ذریعہ محکمہ قانون اور عدلیہ سے رابطہ کیے جانے پر ٹال مٹول کا رویہ رہا اور عدم دلچسپی نظر آئی ہے۔
عدالت عالیہ نے ریاست کو ہدایت کی کہ وہ اس فیصلے کی تاریخ سے ایک ماہ کے اندر اندر بامبے ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو غیر فعال فائلوں پر موجود 97 مقدمات کی تفصیلات فراہم کرے اور ان مقدمات میں لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے فوری طور پر ایک خصوصی سیل تشکیل دے۔ موجودہ درخواست یہ اعلان کرنے کے لیے دائر کی گئی تھی کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ، 1952 ('ایکٹ') کے تحت کی گئی انکوائری آئین ہند کے آرٹیکل 311 (2) کے مفہوم کے اندر ایک انکوائری کے مترادف ہوگی۔ اور یہ کہ سرکاری ملازم ایکٹ 1952 کے تحت قصوروار پایا جائے تو اسے سرسری طور پر برطرف کیا جائے گا۔ اور ریاست کو ہدایت دیں کہ وہ جسٹس بی این سری کرشنا کمیشن کے فیصلے کو قبول کرے اور اس پر عمل کرے۔ کرشنا کمیشن اور لاپتہ افراد کو معاوضہ ادا کرنا بھی شامل ہے۔
عدالت نے یہ محسوس کیا ہے کہ ریاستی حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر حکومت کی طرف سے کارروائی کے لیے ایک میمورنڈم جاری کیا تھا اور زیادہ تر سفارشات کو ریاستی حکومت نے قبول کر لیا تھا، تاہم وہ کمیشن کے نتائج سے متفق نہیں تھی۔ فسادات کے اسباب کے سلسلے میں عدالت نے کہا کہ کمیشن کی سفارشات حکومت کو پابند نہیں کر سکتیں اور عدالتیں حکومت کو رپورٹ پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتیں، لیکن، ایک بار جب حکومت سفارشات کو قبول کر لیتی ہے، تو ایک رٹ کورٹ سفارشات پر عمل درآمد کے لیے ایک حکم نامہ جاری کر سکتی ہے کیونکہ یہ سفارشات کو نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: مہاراشٹر حکومت بابری مسجد انہدام کے بعد ممبئی فسادات کے متاثرین کا سراغ لگائے، سپریم کورٹ
ممبئی امن کمیٹی نے لاپتہ افراد اور لواحقین کی اہل خانہ کو کمیشن کے سامنے پیش کیے جانے کے ساتھ ساتھ معاوضہ دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا، ان میں فرید شیخ کے بھائی مرحوم واحد خان اور مرحوم فضل شاد پیش پیش رہے تھے۔ جبکہ۔فرید بٹابٹا والا اور خاتون سوشل ورکر مریم آپا نے ان کی تلاش کے لیے کافی محنت کی تھی۔ ممبئی فسادات کے چشم دید،کمیشن کی کارروائی کو جوت اور پھر رپورٹ کا اردو ترجمہ کرنے والے صحافی جاوید جمال الدین کا کہنا ہے کہ تین دہائی گزر جانے کے بعد ان لاپتہ اور اہل خانہ کا پتہ لگانا دشوار کن ہے، پھر بھی سپریم کورٹ کا حکم ایک خوش آئند بات ہے، لیکن عدالت کے حکم کے باوجود آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی ریاستی حکومت کی عدم دلچسپی افسوناک ہے۔ اس تعلق سے چند صحافیوں اور امن کمیٹی نے ان لوگوں کا پتہ لگانے اور معاوضہ دلانے کے لیے بیڑہ اٹھایا ہے۔
یو این آئی