بہت کم لوگ ایسا سوچتے ہیں کہ سوشل سائیٹس اور سائبر جیسے پلیٹ فارم سے کسی کی مدد بھی کی جاتی ہے ۔ تا ہم ممبئی پولیس نے دو مختلف وارداتوں میں دو لوگوں کی جان بچائی ہے۔
در اصل چودہ فروری کو ممبئی پولیس کے ٹویٹر پر ایک نوجوان جو کہ بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس نے یہ ٹویٹ کیا کہ اس نے اپنا نصاب مکمل نہیں کیا ہے ۔ اس لئے وہ ذہنی تناؤ میں مبتلا ہے ۔اور وہ خودکشی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
ممبئی پولیس کی سائبر سیل نے جیسے ہی اس ٹویٹ کو دیکھا انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے اس ٹویٹ کے بارے میں اس کے لوکیشن کی جانچ شروع کر دی تو پتہ چلا کہ یہ ٹویٹ مہارشٹر کے امرواتی سے کیا گیا ہے ۔
ممبئی پولیس کی سائبر سیل شاخ نے امراوتی کےایس پی ششیکانت ساتوسے رابطہ کیا۔ اور اس معاملے کی جانکاری دی ۔
ممبئی پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس معاملے میں تاخیر کے بغیر اگر مدد نہیں کی گئی تو ممکن ہے کہ نوجوان ذہنی تناؤ میں مبتلا ہونے کے سبب خودکشی جیسا قدم اٹھا سکتا ہے .جسکے بعد امراوتی پولیس نے نوجوان کے رہائش کا پتہ لگایا ۔اور اسے خودکشی کرنے سے بچا لیا ۔
ایسا ہی معاملہ سولہ فروری کو سامنے آیا جب ایک نا معلوم شخص نے فیس بک پر یہ میسج پوسٹ کیا کہ وہ ذہنی تناؤ میں مبتلا ہے۔ اور وہ خودکشی کرنے جا رہا ہے ۔
پولیس نے سائبر سیل کی مد د سے اس کا پتہ لگایا۔ جس کے بعد پتہ چلا کہ بوریولی سے یہ میسیج پوسٹ کیا گیا ہے۔ پولیس نے سائبر سیل کی ٹیم کی مدد سے مقامی پولیس کو اس لوکیشن کی جانکاری دی۔ پولیس اہلکاروں نے محنت کی اور آخر میں نوجوان کو خودکشی کرنے سے پہلے ہی بچا لیا گیا ..
ماہر نفسیات ڈاکٹر یوسف ماچسوالا کہتے ہیں کہ دار اصل اس طرح کے قدم اٹھانا یا خودکشی کے بارے میں سوچنے والے لوگ ایسا سوچتے ہیں کی انکا سب کچھ ختم ہوگیا ہے ۔اور وہ اکیلا پن محسوس کرتے ہیں ۔
اکثر معاملات میں دیکھا گیا ہے ک نوجوان اپنی بات یا اپنے مسائل سے کسی کو واقف نہیں کراتے ہیں
انھیں اس بات یقین نہیں ہوتا کہ انکی بات پر کوئی بھروسہ کریگا۔
اس لئے ہمیشہ گھر والوں کو ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہئے۔
ان کی پریشانیوں کو دور کرنے انھیں اکیلا پن محسوس نہ ہو۔ اس پر سنجیدگی سے انھیں اعتماد میں لیکر بات کرنی چاہئے اس سے اس طرح کی وارداتوں میں ایک حد تک کمی آ سکتی ہے۔