ETV Bharat / state

مالیگاؤں: برسوں پُرانی پتنگ کی دکان معاشی مندی کا شکار

ملک میں روایتی طور پر موسم سرما کے اختتام اور موسم بہار کی آمد کی خوشی میں پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس طرز پر اسے کافی مقبولیت حاصل ہے جبکہ اس ثقافتی شوق سے لاکھوں افراد کا کاروبار بھی وابستہ ہے۔

پتنگ کا کاروبار ختم ہونے کے دہانے پر
پتنگ کا کاروبار ختم ہونے کے دہانے پر
author img

By

Published : Sep 19, 2021, 1:52 PM IST

Updated : Sep 19, 2021, 3:04 PM IST

پتنگ بازی کے لیے ہر سال چھوٹے بڑے میلے منعقد کیے جاتے ہیں اور اسے بسنت کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ بسنت کا مسلم ثقافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں پھر بھی اس کاروبار سے کافی مسلم افراد جُڑے ہوئے ہیں۔ اسی پتنگ کے کاروبار سے وابستہ مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں کے محمد امین ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے پتنگ سازی کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب یہ کاروبار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔

پتنگ کا کاروبار ختم ہونے کے دہانے پر

مالیگاؤں میں قدوائی روڈ بازار علاقے میں ان کی 'بامبے پتنگ سینٹر' نام کی دکان ہے جہاں سے وہ گھر پر تیار ہونے والی رنگ برنگی پتنگیں فروخت کرتے ہیں۔

پتنگ سازی کے اس کاروبار کو محمد امین کے دادا حاجی محمد ابراہیم نے کئی دہائی پہلے شروع کیا تھا۔ پھر ان کے والد کے اور اب خود محمد امین جدید طرز پر اس کاروبار کو زندہ رکھنے کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔

اس تعلق سے محمد امین نے بتایا کہ وہ ہر طرح کی پتنگ گھر پر ہی تیار کرتے ہیں۔ پتنگ تیار کرنے کے لیے خاص لکڑی اور پلاسٹک کا استعمال کیا جاتا ہے جو ریاست آسام سے منگوائی جاتی ہے۔

انہوں نے اس لکڑی کی خاصیت کے بارے میں بتایا کہ 'اس لکڑی میں 40 انچ تک گانٹھ نہیں ہوتی اور یہ اتنی لچکدار ہوتی ہے کہ ہر سمت مُڑ جاتی ہے۔

اس کے علاوہ پتنگ میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کو پیمانے کی مدد سے کٹنگ کیا جاتا ہے۔

محمد امین نے مزید کہا کہ 'پتنگ تیار کرنے کا یہ عمل تین مرحلوں سے گزارنے کے بعد مکمل ہوتا ہے اور پھر اسے فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کے یہاں تیار کی گئی پتنگ کی کوالٹی اچھی ہونے کی وجہ سے نہ صرف شہر بلکہ بیرون شہر بھی مانگ کافی زیادہ ہے۔

محمد امین نے بتایا کہ 'سال میں صرف چار مہینے ہی پتنگ کا سیزن چلتا ہے۔ دو مہینہ موسم سرما کا اور کچھ مہینہ مکر سنکرانتی کے تہوار میں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق پہلے اس کاروبار سے اچھی آمدنی ہوجاتی تھی لیکن اب زیادہ تر لوگ موبائل فون پر گیم کھیلنے لگے ہیں جس کے سبب یہ کاروبار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد امین نے بتایا کہ نائلون مانجھا پر پابندی کی وجہ سے بھی ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے کیونکہ زیادہ تر گراہک نائلون مانجھے کا ہی مطالبہ کرتے ہے۔ وہ مانجھا بہت مضبوط ہوتا ہے لیکن اس کے بہت سارے نقصانات ہیں اس لیے حکومت نے کئی ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کردی ہے۔

محمد امین نے بتایا کہ اس مانجھا پر پابندی کے بعد بریلی میں پتنگ سازی کے کاروبار سے منسلک ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے ہیں۔ جس کے سبب لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت جلد از جلد اس تعلق سے ٹھوس اقدامات تاکہ اس کاروبار سے منسلک لوگوں کی زندگی دوبارہ پٹری پر لوٹ سکے۔

پتنگ بازی کے لیے ہر سال چھوٹے بڑے میلے منعقد کیے جاتے ہیں اور اسے بسنت کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ بسنت کا مسلم ثقافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں پھر بھی اس کاروبار سے کافی مسلم افراد جُڑے ہوئے ہیں۔ اسی پتنگ کے کاروبار سے وابستہ مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں کے محمد امین ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے پتنگ سازی کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب یہ کاروبار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔

پتنگ کا کاروبار ختم ہونے کے دہانے پر

مالیگاؤں میں قدوائی روڈ بازار علاقے میں ان کی 'بامبے پتنگ سینٹر' نام کی دکان ہے جہاں سے وہ گھر پر تیار ہونے والی رنگ برنگی پتنگیں فروخت کرتے ہیں۔

پتنگ سازی کے اس کاروبار کو محمد امین کے دادا حاجی محمد ابراہیم نے کئی دہائی پہلے شروع کیا تھا۔ پھر ان کے والد کے اور اب خود محمد امین جدید طرز پر اس کاروبار کو زندہ رکھنے کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔

اس تعلق سے محمد امین نے بتایا کہ وہ ہر طرح کی پتنگ گھر پر ہی تیار کرتے ہیں۔ پتنگ تیار کرنے کے لیے خاص لکڑی اور پلاسٹک کا استعمال کیا جاتا ہے جو ریاست آسام سے منگوائی جاتی ہے۔

انہوں نے اس لکڑی کی خاصیت کے بارے میں بتایا کہ 'اس لکڑی میں 40 انچ تک گانٹھ نہیں ہوتی اور یہ اتنی لچکدار ہوتی ہے کہ ہر سمت مُڑ جاتی ہے۔

اس کے علاوہ پتنگ میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کو پیمانے کی مدد سے کٹنگ کیا جاتا ہے۔

محمد امین نے مزید کہا کہ 'پتنگ تیار کرنے کا یہ عمل تین مرحلوں سے گزارنے کے بعد مکمل ہوتا ہے اور پھر اسے فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کے یہاں تیار کی گئی پتنگ کی کوالٹی اچھی ہونے کی وجہ سے نہ صرف شہر بلکہ بیرون شہر بھی مانگ کافی زیادہ ہے۔

محمد امین نے بتایا کہ 'سال میں صرف چار مہینے ہی پتنگ کا سیزن چلتا ہے۔ دو مہینہ موسم سرما کا اور کچھ مہینہ مکر سنکرانتی کے تہوار میں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق پہلے اس کاروبار سے اچھی آمدنی ہوجاتی تھی لیکن اب زیادہ تر لوگ موبائل فون پر گیم کھیلنے لگے ہیں جس کے سبب یہ کاروبار آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد امین نے بتایا کہ نائلون مانجھا پر پابندی کی وجہ سے بھی ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے کیونکہ زیادہ تر گراہک نائلون مانجھے کا ہی مطالبہ کرتے ہے۔ وہ مانجھا بہت مضبوط ہوتا ہے لیکن اس کے بہت سارے نقصانات ہیں اس لیے حکومت نے کئی ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کردی ہے۔

محمد امین نے بتایا کہ اس مانجھا پر پابندی کے بعد بریلی میں پتنگ سازی کے کاروبار سے منسلک ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے ہیں۔ جس کے سبب لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت جلد از جلد اس تعلق سے ٹھوس اقدامات تاکہ اس کاروبار سے منسلک لوگوں کی زندگی دوبارہ پٹری پر لوٹ سکے۔

Last Updated : Sep 19, 2021, 3:04 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.