ریاست مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں 2008 بم دھماکہ معاملہ میں ممبئی ہائی کورٹ نے بم دھماکہ متاثرین کو مداخلت کرنے کی اجازت دی ہے اور ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ بم دھماکہ متاثرین کو مداخلت کرنے کی اجازت دینے سے ملزم کرنل پروہیت کے مقدمہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ بم دھماکہ متاثرین کو نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک نے مداخلت کرنے کی اجازت دی ہے۔
ممبئی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس ایس شندے اور جسٹس ایم ایس کارنک نے سینئر ایڈوکیٹ و سابق وزیر (سابق ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا) ایڈوکیٹ بی اے دیسائی کی جانب سے کی گئی بحث، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملزمین کو جتنے حقوق حاصل ہیں اتنے ہی حقوق متاثرین کو بھی حاصل ہونا چاہئے، عدالت نے قبول کرتے ہوئے اس معاملے میں بم دھماکہ متاثرین کو بھی اپنے دلائل عدالت کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دی ہے۔ جس سے ملزم کرنل پروہت کو زبردست جھٹکا لگا ہے کیونکہ انہوں نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے بم دھماکہ متاثرین کی مداخلت کار کی درخواست مسترد کیے جانے کی گذارش کی تھی۔
ملیمت کمیشن رپورٹ اور مختلف ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقول جس میں متاثرین کو یکساں حقوق دیئے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ ریسرچ دستاویزات کو ایڈوکیٹ بی ایس دیسائی کی نگرانی میں ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ ہیتالی سیٹھ، ایڈوکیٹ کرتیکا اگروال نے تیار کیا تھا۔
ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے بم دھماکہ متاثرین کے حق میں فیصلہ آنے پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ عدالت کے فیصلہ سے ملزمین کو سخت جھٹکا لگا ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ 'جمعیۃ علماء نے متاثرین کی جانب سے نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک مداخلت کی، جس کی وجہ سے آج این آئی اے کی جانب سے کلین چٹ دیے کے باوجود ملزمین کو مقدمہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس سے بچنے کے لیے وہ وقتا فوقتا مقدمہ سے ڈسچارج کی عرضداشت داخل کرتے رہتے ہیں۔'
واضح رہے کہ ملزم کرنل پروہیت نے مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی ممبئی ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی ہے۔ جس میں اس نے عدالت کو بتایا ہے کہ اسے گرفتار کرنے سے قبل کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ (2) 197 کے تحت ضروری خصوصی اجازت نامہ یعنی کے سینکشن آرڈر حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ لہذا اس کے خلاف قائم مقدمہ غیر قانونی ہے، جسے ختم کیا جائے۔ کسی بھی پبلک سرونٹ کو گرفتار کرنے سے قبل کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ(2) 197 کے تحت اعلی افسر سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے لیکن کرنل پروہیت کا دعوی ہے کہ اسے گرفتار کرنے سے قبل انسداد دہشت گرد دستہ (ATS) نے اعلی افسر سے خصوصی اجازت حاصل نہیں کی تھی۔
جس کی وجہ سے اس کے خلاف قائم مقدمہ ہی غیر قانونی ہے۔ لہذا اس پر قائم مقدمہ ختم کیا جائے۔ اس مقدمہ میں ٹرائل کورٹ میں اب تک 140 گواہوں کی گواہی عمل میں آچکی ہے لیکن کورونا وباء کی وجہ سے عدالتی کارروائی فی الحال نہیں کی جا رہی ہے لیکن گذشتہ سماعت پر این آئی اے نے کہا تھا کہ دسمبر سے مقدمہ کی باقاعدہ سماعت کی جائےگی۔