وقف نے ذکریہ مسجد ٹرسٹ کے ٹرسٹی ارشاد لکڑاوالا، ایم ایس نینا ریالٹی کے مالک بلڈر آصف اسلم نرباں، بی ایم سی کمشنر اور مہاڈا سمیت 12 لوگوں کو نوٹس جاری کر اس سودے بازی کولیکر جواب طلب کیا ہے۔
وقف بورڈ نے اپنی نوٹس میں یہ بھی سوال کیا ہے کہ اس غیر قانونی سودے بازی کو لیکر کیوں نہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے وقف کی ملکیت کی سودے بازی کی ہے۔
بازار والا بلڈنگ کو لیکر ہم نے جب پڑتال کی تو پتا چلا کہ اس ملکیت کے مکینوں کو گھر کے بدلے گھر دیا جائیگا، جبکہ مسجدٹرسٹ کو 7 فلیٹ اور ایک مدرسہ دیا جائیگا اور ملکیت کو فروخت کرنے کے عوض میں ڈیڑھ کروڑ کیش دیئے جائینگے۔
ای ٹی وی بھارت کے ہاتھ لگے دستاویزوں سے یہ سنسی خیز انکشاف ہوا ہے کہ وقف کی یہ ملکیت ری ڈیولپمنٹ کے بعد وقف کی ملکیت نہیں رہے گی بلکہ اس ملکیت پر ریڈولمپنٹ کرنے والی کنسٹرکشن کمپنی ننا ریالٹی کی ملکیت ہوگی۔
ہم نے مسجد ٹرسٹ اور اسے ریڈولمپنٹ کرنے والی کنسٹرکشن کمپنی آصف اکرم نربان سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ای ٹی وی بھارت کے ہاتھ لگے دستاویزوں میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کنسٹرکشن کمپنی نے وقف بورڈ سے این او سی حاصل کرنے کے بعد ہی اس ملکیت کو خریدا ہے۔
وقف رکن خالد بابو قریشی کا کہنا ہے کہ ممبئی میں 1200 سے زائد وقف بورڈ کی فرضی این او سی لیکر بلڈر وقف کی ملکیت پر قبضہ جما رہے ہیں۔ اگر اس کمپنی کے پاس این او سی ہے تو وقف بورڈ نوٹس کیوں جاری کرتی، اسلئے یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے کہ اس ملکیت کو کیسے بیچا گیا اور یہ این او سی کہاں سے لی گئی کیا یہ این او سی بھی فرضی ہے، اس کی بھی جانچ ہونی ضروری ہے۔
حالانکہ وقف قوانین کی مطابق وقف ملکیت بھلے ہی از سر نو تعمیر کی جائے، لیکن اس کا پکا مالکانہ حق ہمیشہ وقف بورڈ کا ہی رہتا ہے یا اس کے زیر اہتمام چلنے والے ٹرسٹ کا ہوتا ہے، لیکن دستاویزوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ اس پر مالکانہ حق ٹرسٹ کا نہیں بلکہ اس بلڈر کا ہوگا جس نے اسے خریدا ہے۔
مزید پڑھیں:
اورنگ آباد: نام کی تبیدیلی کی سیاست کارگرنہیں ہوگی
ممبئی میں ایسی نہ جانے کتنی وقف کی ملکیت ہیں جنہیں ٹرسٹیوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے اسے نہ صرف ازسرنوتمیر کیا ہے بلکہ اس کا مالکانہ حق بھی فروخت کیا ہے۔ جس کو لیکر وزیر اوقاف نواب ملک نے کارروائی کی بات کہی تھی۔