ETV Bharat / state

مہاراشٹر: سیاسی ہلچل تیز تر

ریاست مہاراشٹر میں سیاسی اتھل پتھل اب بھی جاری ہے اور نتائج آنے کے ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی اب تک حکومت سازی کی تصویر صاف نہیں ہوئی ہے، اور شیوسینا اقتدار میں 50 فیصدی حصے داری کے لیے بضد ہے۔

سیاسی ہلچل تیز
author img

By

Published : Oct 31, 2019, 10:42 PM IST

ریاست میں حکومت سازی کے لیے ان دنوں جاری سیاسی ہلچل اور اتھل پتھل پر کون سی پارٹی اقتدار میں ہوگی مطلع صاف نہیں ہو رہا ہے اور بی جے پی و شیوسینا میں مسلسل لفظی جنگ کے بعد اب انٹلیجنس ایجنسیز نے بھی اس معاملہ میں سنجیدگی اختیار کر لی ہے اور تمام رہنماؤں کی نگرانی کرنا شروع کردیا ہے۔

آئی بی سمیت دیگر ایجنسیوں نے سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات پر سختی سے نظر رکھ رہی ہے کیوں کہ اس طرح کے معاملات مین ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت عروج پر ہوتی ہے

ریاست میں آئندہ حکومت سازی کے لیے بی جے پی مستحکم ضرور ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پاس اکثریت نہیں ہے اور واضح اکثریت کے لیے بی جے پی کو اپنی حلیف شیوسینا کو ساتھ لے کر ہی چلنا ہوگا یا پھر اگر شیوسینا نے ساتھ نہیں نبھایا تو بی جے پی شرد پوار کی قیادت والی این سی پی سے بھی مدد لے سکتی ہے۔

بی جے پی نے شیوسینا کو 13 قلمدان دینے کی پیش کش بھی کی ہے لیکن شیوسینا وزیراعلی کی کر سی پر آدیتہ ٹھاکرے کو بیٹھانے کے لیے بضد ہے اور ڈھائی ڈھائی برس کے فارمولے کے ساتھ ففٹی ففٹی پر بھی بضد ہے، ایسی صورت میں کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش جاری ہے جبکہ بی جے پی نے ایوان میں لیڈر کے طور پروزیراعلی دیویندر فڑنویس کو منتخب کر دیا ہے۔

ان دونوں پارٹیوں کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان کانگریس اور این سی پی بھی ان دونوں پارٹیوں میں پیدا شدہ ہلچل کا باریکی سے معائنہ کر رہی ہے اور اس کے بعد ہی یہ دونوں پارٹیاں اپنی حکمت عملی تیار کریں گی۔

واضح رہے کہ شیوسینا کے تیور گزشتہ روز سے کچھ نرم ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے بی جے پی پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو ترک نہیں کیا ہے۔

سینا بی جے پی ایک دوسرے کی مجبوری ہیں اس لیے تلخیوں کے باوجود ان دونوں کا ہی حکومت سازی کے لیے دعوی پیش کرنا ایک اہم وجہ سمجھی جارہی ہے۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی اور شیوسینا ایک مرتبہ پھر سے اقتدار میں آسکتی ہے لیکن شیوسینا نے بی جے پی کی حمایت نہیں کی تو اسے اقتدار سے ہاتھ بھی ہونا پڑ سکتا ہے لیکن اگر شیوسینا کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہے تو اسے این سی پی اور کانگریس کو اپنے ساتھ لینا ہوگا لیکن ان تینوں پارٹیوں میں نظریاتی اختلافات ہیں ایسے میں بی جے پی شیوسینا کی لیے مجبوری ہے۔

حالاںکہ بی جے پی حکومت سازی کے لیے مضبوط دعویدار ہے اور گورنر بھی ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے پہلے دیویندر فڑنویس کو ہی دعوت دیں گے۔

اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کی ریاست میں جاری سیاسی اتھل پتھل کب تھمتی ہے اور یہ سیاسی کیمپ کس کروٹ بیٹھے گا؟

ریاست میں حکومت سازی کے لیے ان دنوں جاری سیاسی ہلچل اور اتھل پتھل پر کون سی پارٹی اقتدار میں ہوگی مطلع صاف نہیں ہو رہا ہے اور بی جے پی و شیوسینا میں مسلسل لفظی جنگ کے بعد اب انٹلیجنس ایجنسیز نے بھی اس معاملہ میں سنجیدگی اختیار کر لی ہے اور تمام رہنماؤں کی نگرانی کرنا شروع کردیا ہے۔

آئی بی سمیت دیگر ایجنسیوں نے سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات پر سختی سے نظر رکھ رہی ہے کیوں کہ اس طرح کے معاملات مین ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت عروج پر ہوتی ہے

ریاست میں آئندہ حکومت سازی کے لیے بی جے پی مستحکم ضرور ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پاس اکثریت نہیں ہے اور واضح اکثریت کے لیے بی جے پی کو اپنی حلیف شیوسینا کو ساتھ لے کر ہی چلنا ہوگا یا پھر اگر شیوسینا نے ساتھ نہیں نبھایا تو بی جے پی شرد پوار کی قیادت والی این سی پی سے بھی مدد لے سکتی ہے۔

بی جے پی نے شیوسینا کو 13 قلمدان دینے کی پیش کش بھی کی ہے لیکن شیوسینا وزیراعلی کی کر سی پر آدیتہ ٹھاکرے کو بیٹھانے کے لیے بضد ہے اور ڈھائی ڈھائی برس کے فارمولے کے ساتھ ففٹی ففٹی پر بھی بضد ہے، ایسی صورت میں کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش جاری ہے جبکہ بی جے پی نے ایوان میں لیڈر کے طور پروزیراعلی دیویندر فڑنویس کو منتخب کر دیا ہے۔

ان دونوں پارٹیوں کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان کانگریس اور این سی پی بھی ان دونوں پارٹیوں میں پیدا شدہ ہلچل کا باریکی سے معائنہ کر رہی ہے اور اس کے بعد ہی یہ دونوں پارٹیاں اپنی حکمت عملی تیار کریں گی۔

واضح رہے کہ شیوسینا کے تیور گزشتہ روز سے کچھ نرم ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے بی جے پی پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو ترک نہیں کیا ہے۔

سینا بی جے پی ایک دوسرے کی مجبوری ہیں اس لیے تلخیوں کے باوجود ان دونوں کا ہی حکومت سازی کے لیے دعوی پیش کرنا ایک اہم وجہ سمجھی جارہی ہے۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی اور شیوسینا ایک مرتبہ پھر سے اقتدار میں آسکتی ہے لیکن شیوسینا نے بی جے پی کی حمایت نہیں کی تو اسے اقتدار سے ہاتھ بھی ہونا پڑ سکتا ہے لیکن اگر شیوسینا کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہے تو اسے این سی پی اور کانگریس کو اپنے ساتھ لینا ہوگا لیکن ان تینوں پارٹیوں میں نظریاتی اختلافات ہیں ایسے میں بی جے پی شیوسینا کی لیے مجبوری ہے۔

حالاںکہ بی جے پی حکومت سازی کے لیے مضبوط دعویدار ہے اور گورنر بھی ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے پہلے دیویندر فڑنویس کو ہی دعوت دیں گے۔

اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کی ریاست میں جاری سیاسی اتھل پتھل کب تھمتی ہے اور یہ سیاسی کیمپ کس کروٹ بیٹھے گا؟

Intro:ریاست میں حکومت سازی کیلئے ہلچل تیز
شیوسینا بی جے پی کی مجبوری, بی جے پی سرکاری سازی کیلئے مضبوط دعویدار, انٹلیجنس ایجنسیوں نے بھی شیوسینا بی جے پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کی سر گرمیوں پر نگرانی

ممبئی: ریاست میں سرکارسازی کیلئے ان دنوں جاری سیاسی ہلچل اور اتھل پتھل پر کون حکومت سازی کریگا بی جے پی شیوسینا میں مسلسل لفظی جنگ کے بعد اب انٹلیجنس ایجنسیوں نے بھی اس معاملہ میں سنجیدگی سے نگرانی رکھنی شروع کردی ہے۔ آئی بی سمیت دیگر ایجنسیوں نے سیاسی پارٹیوں کی حرکات و سکنات اور کون سا امیدوار کس پارٹی میں شمولیت کر سکتا ہے اور کس پارٹی کو بی جے پی کی حمایت حاصل ہے اور شیوسینا کس کے رابطے میں ہے اور ریاست میں آئندہ حکومت سازی کون کریگا بی جے پی اس کے لئے مستحکم ضرور ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پاس اکثریت نہیں ہے واضح اکثریت کے لئے بی جے پی کو اپنی پرانی حلیف شیوسینا کو ساتھ لے کر ہی چلنا ہوگا یا پھر اگر شیوسینا نے ساتھ نہیں نبھایا تو پھر بی جے پی این سی پی سے بھی مدد لے سکتی ہے۔


شیوسینا کو 13 وزارت دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے لیکن شیوسینا وزیر اعلی کی کر سی پر ادیتہ ٹھاکرے کو بٹھانے کیلئے بضد ہے اور ڈھائی ڈھائی سال کے فارمولے کے ساتھ ففٹی ففٹی پر بھی بضد ہے ایسی صورت میں کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کی کوشش جاری ہے جبکہ بی جے پی نے بطور ہاؤس لیڈر کے طور پروزیر اعلی دیویندر فڑنویس کو منتخب بھی کر دیا ہے۔

شیوسینا اور بی جے پی کی ناراضگی کو دور کر نے کی کوششیں تیز کردی گئی ہے۔ کانگریس این سی پی بھی ان دونوں پارٹیوں میں پیدا شدہ ہلچل کا باریکی سے معائنہ کر رہی ہے اور اس کے بعد ہی یہ دونوں پارٹیاں اپنی حکمت عملی تیار کریگی شیوسینا کے تیور گزشتہ روز سے کچھ نرم ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود شیوسینا نے بی جے پی پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو ترک نہیں کیا ہے۔ شیوسینا بی جے پی ایک دوسرے کی مجبوری ہے اس لئے تلخی کے باوجود ان دونوں کا ہی حکومت سازی کیلئے دعوی پیش کرنا ایک اہم وجہ سمجھی جارہی ہے بی جے پی حکومت سازی کیلئے دعوی پیش کریگی اور شیوسینا اس کی حمایت کریگی اس کا قوی امکان انٹلیجنس ایجنسیوں نے لگایا ہے ریاست کے حالات دیکھتے ہوئے بی جے پی اور شیوسینا ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ آسکتی ہے کیونکہ اگر شیوسینا نے ایسا نہیں کیا ہے تو اسے اقتدار سے بے دخل بھی ہونا پڑ سکتا ہے یا پھر شیوسینا کو نعم البدل کے طور پر این سی پی اور کانگریس کواپنے ساتھ لینا ہوگا لیکن ان تینوں پارٹیوں میں نظریاتی اختلافات ہیں ایسے میں بی جے پی شیوسینا کیلئے مجبوری ہے۔

بی جے پی سرکار سازی کیلئے مضبوط دعویدار ہے اور گورنر بھی دیویندر فڑنویس سے پہلے دعوی طلب کر سکتے ہیں ایسی صورت میں ایک مرتبہ پھر بی جے پی کی سرکار پانچ سال کے لئے ریاست میں ہونے کا امکان روشن ہوگیا ہےBody:...Conclusion:..
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.