ریاست میں حکومت سازی کے لیے ان دنوں جاری سیاسی ہلچل اور اتھل پتھل پر کون سی پارٹی اقتدار میں ہوگی مطلع صاف نہیں ہو رہا ہے اور بی جے پی و شیوسینا میں مسلسل لفظی جنگ کے بعد اب انٹلیجنس ایجنسیز نے بھی اس معاملہ میں سنجیدگی اختیار کر لی ہے اور تمام رہنماؤں کی نگرانی کرنا شروع کردیا ہے۔
آئی بی سمیت دیگر ایجنسیوں نے سیاسی جماعتوں کی حرکات و سکنات پر سختی سے نظر رکھ رہی ہے کیوں کہ اس طرح کے معاملات مین ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت عروج پر ہوتی ہے
ریاست میں آئندہ حکومت سازی کے لیے بی جے پی مستحکم ضرور ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پاس اکثریت نہیں ہے اور واضح اکثریت کے لیے بی جے پی کو اپنی حلیف شیوسینا کو ساتھ لے کر ہی چلنا ہوگا یا پھر اگر شیوسینا نے ساتھ نہیں نبھایا تو بی جے پی شرد پوار کی قیادت والی این سی پی سے بھی مدد لے سکتی ہے۔
بی جے پی نے شیوسینا کو 13 قلمدان دینے کی پیش کش بھی کی ہے لیکن شیوسینا وزیراعلی کی کر سی پر آدیتہ ٹھاکرے کو بیٹھانے کے لیے بضد ہے اور ڈھائی ڈھائی برس کے فارمولے کے ساتھ ففٹی ففٹی پر بھی بضد ہے، ایسی صورت میں کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش جاری ہے جبکہ بی جے پی نے ایوان میں لیڈر کے طور پروزیراعلی دیویندر فڑنویس کو منتخب کر دیا ہے۔
ان دونوں پارٹیوں کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان کانگریس اور این سی پی بھی ان دونوں پارٹیوں میں پیدا شدہ ہلچل کا باریکی سے معائنہ کر رہی ہے اور اس کے بعد ہی یہ دونوں پارٹیاں اپنی حکمت عملی تیار کریں گی۔
واضح رہے کہ شیوسینا کے تیور گزشتہ روز سے کچھ نرم ضرور ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے بی جے پی پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو ترک نہیں کیا ہے۔
سینا بی جے پی ایک دوسرے کی مجبوری ہیں اس لیے تلخیوں کے باوجود ان دونوں کا ہی حکومت سازی کے لیے دعوی پیش کرنا ایک اہم وجہ سمجھی جارہی ہے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی اور شیوسینا ایک مرتبہ پھر سے اقتدار میں آسکتی ہے لیکن شیوسینا نے بی جے پی کی حمایت نہیں کی تو اسے اقتدار سے ہاتھ بھی ہونا پڑ سکتا ہے لیکن اگر شیوسینا کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہے تو اسے این سی پی اور کانگریس کو اپنے ساتھ لینا ہوگا لیکن ان تینوں پارٹیوں میں نظریاتی اختلافات ہیں ایسے میں بی جے پی شیوسینا کی لیے مجبوری ہے۔
حالاںکہ بی جے پی حکومت سازی کے لیے مضبوط دعویدار ہے اور گورنر بھی ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے پہلے دیویندر فڑنویس کو ہی دعوت دیں گے۔
اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کی ریاست میں جاری سیاسی اتھل پتھل کب تھمتی ہے اور یہ سیاسی کیمپ کس کروٹ بیٹھے گا؟