ممبئی: سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں اقتدار کی کشمکش پر آج اپنا فیصلہ سنائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ اس کیس میں 16 مارچ کو سماعت مکمل ہوئی اور سپریم کورٹ میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔ اس معاملے کی سماعت پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے ہوئی۔ سپریم کورٹ نے رواں برس مارچ میں ادھو ٹھاکرے اور وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے کے گروپ کی طرف سے ریاست میں گذشتہ برس کے سیاسی بحران سے متعلق درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جس میں شیوسینا کے 16 اراکین اسمبلی (شندے گروپ) کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے جنہوں نے ادھو ٹھاکرے کی قیادت کے خلاف بغاوت کی تھی۔
پچھلے برس جون کے مہینے میں ایکناتھ شندے نے ادھو ٹھاکرے سے بغاوت کر دی تھی۔ اس وقت ان کے ساتھ پارٹی کے 15 دیگر اراکین اسمبلی بھی پارٹی چھوڑ کر ایکناتھ شندے کے گروپ میں شامل ہو گئے تھے۔ بغاوت کے بعد ایکناتھ شندے پہلے سورت اور پھر گوہاٹی میں حمایتی ایم ایل اے کے ساتھ رہے۔ اس وقت ادھو ٹھاکرے نے ایکناتھ کو واپس آنے اور بات چیت کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ تاہم اس تجویز کا شندے کی طرف سے مناسب جواب نہیں ملا بعد میں اس وقت کی ودھان سبھا کے اسپیکر (ڈپٹی اسپیکر) نے اپنے حمایتی ایم ایل اے بشمول ایکناتھ شندے کو ودھان سبھا آنے کے لیے کہا تھا۔ تاہم، ایکناتھ شندے نے عمل نہیں کیا اُن پر یہ الزام ان پر لگایا گیا تھا، اس کے بعد ادھو ٹھاکرے نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد 30 جون کو ریاست میں شندے فڑنویس کی حکومت بنی۔ اس کے بعد ادھو ٹھاکرے گروپ نے ایکناتھ شندے اور ان کے 15 ایم ایل ایز کو نااہل قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی، اس پر آج فیصلہ ہونا ہے۔
اس کیس کی جن پانچ ججوں نے بنچ نے سماعت کی، ان میں سے ایک 15 مئی کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ سنانے کی بات ہو رہی ہے۔ اس فیصلے سے ریاستی حکومت کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئی ہیں۔ آج سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے سمیت حکمراں جماعت کے 16 اراکین کی رکنیت پر اہم فیصلہ سنا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت میں دونوں طرف سے زبردست بحث ہوئی۔ بحث کے دوران ججوں نے اس وقت کے گورنر کے کردار اور آئین کے 10ویں شیڈول کی دفعات پر بحث کے حوالے سے جس طرح کے تبصرے کیے، اس کو دیکھتے ہوئے فی الحال یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلہ کس کے حق میں اور کس کے خلاف ہو گا! لیکن اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو حکومت پر اس کے اثرات کو لے کر کئی بڑے سوال اٹھ رہے ہیں۔
اگر سپریم کورٹ ایکناتھ شندے سمیت شیوسینا چھوڑنے والے 16 ایم ایل ایز کو قانون ساز اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار دیتی ہے تو شندے کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا ہوگا۔ اس صورت حال میں شندے حکومت کا زوال یقینی ہے۔
اسمبلی میں حکومت کے پاس دستیاب اکثریت کے مطابق شندے حکومت کے گرنے کے بعد بی جے پی اور شیو سینا (شندے) کے پاس اقتدار برقرار رہنے کا امکان ہے لیکن دونوں کو مل کر حکمراں جماعت کا لیڈر دوبارہ منتخب کرنا ہوگا اور اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی۔ شندے کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کے بارے میں ماہرین کی مختلف آرا ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے ایم ایل اے اگلے 6 سال تک الیکشن نہیں لڑ سکیں گے جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار فیصلے پر ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایسا نہیں کہا تو شندے دوبارہ وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھانا ہوگا اور 6 ماہ کے اندر انہیں ایوان میں رکن منتخب ہونا ہوگا۔
مزید پڑھیں: Sanjay Raut On Shinde Government شندے حکومت 15 دنوں میں گر جائے گی، سنجے راوت کا دعویٰ
CM Shinde on leave Reports شندے نے ایک ہی دن میں دی 65 فائلوں کو منظوری
وہیں اگر سپریم کورٹ اراکین اسمبلی کو براہ راست اہل یا نااہل قرار نہیں دیتی اور اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر پر چھوڑ دیتی ہے تو حکمراں جماعت اس فیصلے سے بچنے اور موجودہ حالات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی، چونکہ قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کا تعلق حکمران جماعت سے ہوتا ہے اور اس کا فیصلے کرنے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا، اس لیے حکمران جماعت کے لیے ایسا کرنا آسان ہوگا۔