بالی ووڈ فلم نگری پر طویل عرصے تک راج کرنے والے مشہور و معروف اداکار دلیپ کمار نے آج ممبئی کے ہندوجا اسپتال میں آخری سانس لی۔ وہ 98 برس کے تھے۔ لیجنڈ بالی ووڈ اداکار و شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کو گزشتہ روز سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ پچھلے چند سالوں سے معروف اداکار کی طبیعت ناساز چل رہی تھی جب کہ گزشتہ ماہ بھی انھیں اسپتال میں شریک کرایا گیا تھا۔ مارچ 2020 میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے نفاذ سے پہلے دلیپ کمار اور ان کی اہلیہ سائرہ بانو، کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے مکمل آئیسولیشن اور قرنطینہ میں چلے گئے تھے۔
دلیپ کمار کا اصل نام محمد یوسف خان ہے۔ دلیپ کمار 11 دسمبر 1922 کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد غلام سرور خان، پھلوں کے تاجر تھے جنہیں 13 بچے تھے جب کہ محمد یوسف خان ان کی پانچویں اولاد ہیں۔ 1932 میں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا، جہاں ان کے والد پھلوں اور خشک میوے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ دلیپ کمار نے انجمن اسلام اسکول سے میٹرک اور خالصہ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد انہیں پونہ کے ملٹری کینٹین میں مینیجر کی نوکری مل گئی۔ سال 1943 میں دلیپ کمار کی ملاقات بمبئی ٹاکیز کے مالکان دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو سے ہوئی، جنھوں نے 1944 میں اپنی فلم جوار بھاٹا میں دلیپ کمار کو بطور ہیرو کاسٹ کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندی زبان کے مصنف بھگوتی چرن ورما نے یوسف خان کو فلمی نام 'دلیپ کمار' دیا تھا۔
شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو سے دلیپ کمار کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ بالی ووڈ کے ٹریجڈی کنگ کے لقب سے مشہور دلیپ کمار کا فلمی کیریئر 6 دہائیوں پر محیط ہے جب کہ انہوں نے زائد از 65 فلموں میں اداکاری کی تھی۔ دلیپ کمار نے جہاں ایک طرف سنجیدہ و رومانی اداکاری کے جوہر بکھیرے وہیں انہوں نے فلم کوہ نور، آزاد، گنگا جمنا اور رام شیام میں بے مثال کامیڈی کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ لوگوں کو ہنسانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ مشہور زمانہ فلم 'لارنس آف عریبیہ ' میں اداکاری کرنے سے دلیپ کمار نے انکار کردیا تھا، جس کے بعد اس فلم میں عمر شریف کو لیا گیا اور وہ ہالی ووڈ کے سُپر اسٹار بن گئے۔
دلیپ کمار نے 1944 میں فلم ’جواہر بھاٹا‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ انہوں نے کوہ نور، شہید، دیوداس، نیا دور، رام شیام، بیراگ، سوداگر، شکتی، ودھاتا اور مشہور زمانہ فلم مغل اعظم میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فلم انڈسٹری میں اپنی اصل پہچان 1960 میں تاریخی فلم ’مغلِ اعظم‘ میں شہزادہ سلیم کا کردار ادا کرکے بنائی تھی۔ انہیں آخری بار 1998 میں ریلیز ہوئی فلم ’قلعہ‘ میں پردہ پر دیکھا گیا تھا۔ دلیپ کمار راجیہ سبھا کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور انھیں ممبئی کا اعزازی شیرف بھی بنایا گیا تھا۔
فلم مغل اعظم کی تیاری کے دوران دلیپ کمار اور مشہور اداکارہ مدھوبالا کی محبت عروج پر تھی۔ دلیپ کمار کی مدھوبالا سے پہلی ملاقات فلم ’جوار بھاٹا‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی اور یہ ملاقات بہت جلد دوستی سے محبت میں بدل گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مدھوبالا کے والد کی وجہ سے دلیپ کی محبت پروان نہیں چڑھ سکی تاہم مغل اعظم کی تکمیل سے پہلے ہی محبت میں تلخی آگئی اور یہ حسین جوڑی ٹوٹ گئی۔
دلیپ کمار کی شادی 11 اکتوبر 1966 کو مشہور اداکارہ سائرہ بانو سے ہوئی۔ اس وقت سائرہ کی عمر 22 سال اور دلیپ کمار 44 برس کے تھے۔ دلیپ کمار کی کوئی اولاد نہیں ہے جب کہ انہوں نے ایک کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ سائرہ 1972ء میں حاملہ ہوئیں لیکن ڈاکٹر بچے کو بچا نہ سکے۔ سائرہ بانو سے شادی کرنے کے بعد دلیپ کمار نے 1980 میں حیدرآباد کی اسماء بیگم سے شادی کی تھی، لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک نہیں چل سکی۔
معروف اداکار دلیپ کمار کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور حکومت پاکستان نے انہیں نشانِ امتیاز سے سرفراز کیا ہے۔ 1994 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور 2015 میں پدم وبھوشن سے نوازا گیا۔ انہوں نے 8 مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا اور فلم فیئر نے انہیں ’لائف اچیومنٹ‘ ایوارڈ بھی عطا کیا۔ حال ہی میں دلیپ کمار کی پاکستان میں واقع آبائی رہائش گاہ کو یادگار بنانے کا پاکستانی حکومت نے اعلان کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: Condoles Dilip Kumar's Death: وزیراعظم سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کی شہنشاہِ جذبات کے انتقال پر اظہارِ تعزیت
دلیپ کمار کے بھائیوں 90 سالہ احسان خان اور 88 سالہ اسلم خان میں گزشتہ سال کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اور انہیں علاج کے لیے ممبئی کے لیلاوتی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں دونوں کا انتقال ہوگیا تھا۔
شہنشاہِ جذبات کے لقب سے مشہور بالی ووڈ کے قدآور اداکار دلیپ کمار کی شہرت آج بھی برقرار ہے۔ ان کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ دلیپ کمار نے اپنی لازوال فنکاری سے مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جسے تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔