ان دنوں مُمبرا قبرستان کی وجہ سے کافی سرخیوں میں ہے۔ یہاں مسلسل عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں لیکن قبرستان کامسئلہ اب بھی جوں کا توں ہے۔
ممبرا کی بڑھتی آبادی میں دیوری پاڑہ، شری لنکا، دھاؤلے گاؤں۔ ان سارے علاقوں میں رہنے والوں کے لیے قبرستان کی جگہ الگ تو کر دی گئی ہے لیکن آج بھی یہ قانونی داؤ پیچ اور مقامی سیاست کے درمیان ہچکولے کھاتی نظر آرہی ہے۔
مقامی سیاسی لیڈران اس کے لیے لگاتار مشقت کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
کانگریس رہنما پرویز مکرانی نے قبرستان کے مسئلے کے تعلق سے کافی دوڑ دھوپ کی ہے اور سرکاری عہدیداران کو خط لکھ کر آگاہ بھی کیا ہے کہ ممبرا میں قبرستان کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہاں میتوں کی تدفین کے لیے ایم ایم ویلی قبرستان جانا پڑتا ہے۔ اگر یہ قبرستان لوگوں کے لیے کھول دیا جائے تو اس علاقے کے لوگوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
واضح رہے ممبرا زمانہ قدیم سے ہی کثیر مسلم آبادی والا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ پہلے بندرگاہ ہوا کرتا تھا اور یہاں بنائے گئے جہاز دور دور تک مشہور تھے۔ ایک حکایت کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عمرؓ فاروق کے دورِخلافت میں عرب تاجر و ملاح تھانے ضلع آتے جاتے رہے ہیں لہٰذا اُس زمانے سے ہی مقامی آدیواسی،آگری، کولی باشندوں کے ساتھ مسلمانوں کی بستیاں بھی یہاں آباد تھیں۔
سنہ 1992 کے فسادات کے بعد سے ممبرا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور ممبئی کی مسلم بستیوں اور جھونپڑ پٹیوں میں مقیم پسماندہ طبقہ کے لیے ممبرا متوسط طبقے کی شکل اختیار کر گیا لیکن موجودہ وقت میں قبرستان کے مسئلہ کی وجہ ممبرا کے لوگ فکرمند ہیں۔