شرڈی: سابق مرکزی وزیر مختار نقوی نے گذشتہ روز دوپہر میں شرڈی میں سائی بابا کی آرتی میں شرکت کی۔ آرتی کے بعد ادارے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر راہل جادھو نے مختار عباس نقوی اور ان کی بیوی کو سائی بابا کی مورتی تحفے میں دے کر انہیں مبارکباد دی۔ اس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نقوی نے دعویٰ کیا کہ بھارت ایک ہندو راشٹر ہی ہے۔ بھارت میں اسی تا نوے فیصد ہندو رہتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر مختار عباس نقوی نے کہا کہ اس حقیقت سے کوئی اختلاف نہیں کرتا کہ یہاں ہندو برادری اکثریت میں ہے۔ اس لیے بھارت ہندو راشٹر رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے پانی، بجلی وغیرہ مفت دینے کا معاملہ کسی ایک پارٹی کا نہیں ہے۔ انتخابی اشتہارات میں مفت تقسیم کے یہ اعلانات ووٹ کے لیے ووٹرز کو لالچ دینے یا رشوت دینے جیسا ہے۔ اس لیے نقوی نے رائے ظاہر کی کہ اس پر قابو پایا جائے اور اس پر روک لگائی جانی چاہیے۔ مختار عباس نقوی نے کہا کہ انتخابی مہم کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ الیکشن کے اعلان سے پہلے اور بعد میں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غلط ہے بہت سی ریاستیں مفت تقسیم کے ذریعے قرض بڑھا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر سائی بابا کے بارے میں کی جانے والی پوسٹس سے متعلق نقوی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کی سرگرمی پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے سائی بابا کی مقبولیت اور ان کی ساکھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی بھی پوری دنیا میں مقبول ہیں۔ لیکن کچھ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان مقبولیت اور اعتماد میں کمی نہیں آئی۔
ملک کے کچھ شہروں اور دیہاتوں کے نام تبدیل کیے جا رہے ہیں، جب کہ کچھ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے مختار عباس نقوی نے کہا کہ تاریخ سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جارہی ہے صرف تاریخ میں جو گیپ ہوا ہے اسے پرُ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کو لوگوں نے شروع سے ہی مختلف اوقات میں اور اپنی سہولت کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کیا اور اس میں بہت سی چیزیں ایسی تھی جو بھارتی سنسکرتی اور بھارتی سنکلپ سے کوسوں دور رہی ہیں تو اس میں جو کمیاں رہی ہیں اسے پر کیا جارہا ہے یہ کوئی سیاسی بات نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : Naqvi on Soros Controversy شارٹ ٹرم سیلر خود ایکسپوز ہورہے ہیں، مختار عباس نقوی کا جارج سوروس پر تبصرہ