ETV Bharat / state

History Of Lal Shah Baba Dargha صوفی لال شاہ بابا کے نام سے لال باغ کا نام رکھا گیا

ممبئی کے لال باغ کی گلیوں میں واقع صوفی بزرگ لال شاہ بابا کا مقبرہ ہے جسے لال بادشاہ یا لال باغ کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے انہی کے نام سے لال باغ کا نام اب لیا جاتا ہے۔

صوفی لال شاہ بابا کے نام سے لال باغ کا نام رکھا گیا
صوفی لال شاہ بابا کے نام سے لال باغ کا نام رکھا گیا
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 25, 2023, 6:26 PM IST

ممبئی: ریاست مہاراشٹر کے ممبئی کے لال باغ فلائی اوور کے قریب ہی بھارت رائس مل کمپاؤنڈ میں لال شاہ بابا کی درگاہ واقع ہے۔ لال شاہ بابا 17 ویں صدی میں مکہ سے ممبئی پہنچے تھے۔ممبئی شہر اور اس کے مقامی باشندوں کی قربت اور ان کی صوفیانہ مزاج اور سرگرمیوں کے سبب ان کی شہرت دور دور تک تھی ۔1782 میں ان کی وفات کے بعد ایک انگریز افسر نے ان کے احترام میں انکے مقبرے کی تعمیر کی تھی۔

سینئر صحافی سعید حمید کہتے ہیں یہاں درگاہ ٹرسٹ اور اسکے اطراف میں وقف کی کروڑوں کی ملکیت ہے جسے ٹرسٹ نے بلڈروں کو فروخت کر دیا اس معاملے کی سنوائی کورٹ میں چل رہی ہے لیکن اس بات سی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس علاقے کا نام صوفی حضرت لال شاہ کے نام پر ہی لال باغ کو موسوم کیا جانے لگا ۔

سعید حمید کہتے ہیں اس علاقے میں مسلمانوں اور انکی ذاتی املاک آج بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔۔یہاں اکثريت غیر مسلموں کی ہے لیکن زیادہ تر عمارتوں کے مالک آج بھی مسلمان ہی ہیں۔اسی علاقے میں لال باغ کا راجہ کی بھی گنپتی 11 دنوں کی بٹھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ملک بیرون ممالک سے زائرین کی بڑی تعداد یہاں درشن کے لیے آتی ہیں صنعت کار، اداکار ،گلوکار،سیاست دانوں کا یہاں تانتا باندھا رہتا ہے۔

بالا صاحب کامبلے طویل عرصے سے لال باغ کا راجہ منڈل سے وابستہ ہیں ان دنوں وہ بہت مصروف ہیں کیونکہ منڈل میں زائرین کی لاکھوں کی تعداد روزآنہ آتی ہے۔ ایسے میں 11 دنوں تک منڈل کے ادنیٰ سے اعلیٰ عہدیداران کی مصروفیات زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بالا صاحب کامبلے کہتے ہیں کہ اس علاقے میں آج بھی درگاہ موجود ہے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اسی درگاہ اور صوفی حضرت لال شاہ کے نام سے ہی علاقے کا نام لال باغ رکھا گیا۔

کامبلے کہتے ہیں ایک روایت ہے جو طویل عرصے سے چلی آرہی ہے۔ ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں سے جب وسرجن کے لیے گزر ہوتا ہے تو لال باغ کے راجہ کے ساتھ پورے قافلے کے استقبال بڑے ہی شاہانہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اُنہیں شربت پیش کیا جاتا ہے۔منڈل کی جانب سے اُنہیں پرساد پیش کیا جاتا ہے یہ روایت کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے جو آج تک چلی آرہی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہاں پہلے ماہی گیروں کی بستی تھی انکی بازاریں تھیں لال باغ چا راجہ سروجنک گنیشوتسو منڈل کی مقبول گنیش کی مورتی ہے۔ منڈل جو پہلے سرواجنک گنیشوتسو منڈل، لال باغ' کے نام سے جانا جاتا تھا 1934 میں لال باغ مارکیٹ میں کولی برادری کے ماہی گیروں نے اسکی بنیاد رکھی تھی۔

منڈل کی بنیاد اس کی موجودہ جگہ پر موجودہ لال باغ مارکیٹ کی تعمیر کے لیے منت مانگی گئی جسکی وجہ سے یہاں اسکی بنیاد رکھی گئی تھی یہاں موجود پیرو چاول کا بازار 1932 میں بند کر دیا گیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ ماہی گیروں اور دکانداروں نے جو کھلی جگہ پر بیٹھتے تھے۔ وہ گنیش دیوتا کے سامنے منت مانی کہ وہ اپنے بازار کے لیے مستقل جگہ بنائیں گے۔ کوارجی جیٹھا بھائی شاہ، شیام راؤ وشنو بودھے، وی بی کورگاؤںکر، رام چندر تواتے، نکھوا کوکم ماما، بھاؤ صاحب شندے، یو اے راؤ اور مقامی باشندوں نے یہاں کی ملکیت کے مالک راجابائی طیب علی سے درخواست کی ۔

یہ بھی پڑھیں؛Milad Juloos 2023 in Aurangabad اورنگ آباد میں جلوس محمدی کی تاریخ تبدیل

اس درخواست کے بعد انہوں نے اس ماہی گیر کی بازار کے لیے ایک پلاٹ وقف کرنے پر بخوشی تیار ہوگئے ماہی گیروں اور تاجروں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے 12 ستمبر 1934 کو گنیش کی مورتی کی بنیاد رکھی۔ اس دوران گنیش کی مورتی کو ماہی گیروں کے روایتی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہر برس الگ تھیم کے ساتھ منڈل گنیش کی مورتی کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس بار رائے گڑھ قلعہ ہے جو کو شیواجی مہاراج کے دور حکومت میں دارلخلافہ ہوا کرتا تھی یہیں شیواجی کی تاجپوشی ہوئی تھی۔

ممبئی: ریاست مہاراشٹر کے ممبئی کے لال باغ فلائی اوور کے قریب ہی بھارت رائس مل کمپاؤنڈ میں لال شاہ بابا کی درگاہ واقع ہے۔ لال شاہ بابا 17 ویں صدی میں مکہ سے ممبئی پہنچے تھے۔ممبئی شہر اور اس کے مقامی باشندوں کی قربت اور ان کی صوفیانہ مزاج اور سرگرمیوں کے سبب ان کی شہرت دور دور تک تھی ۔1782 میں ان کی وفات کے بعد ایک انگریز افسر نے ان کے احترام میں انکے مقبرے کی تعمیر کی تھی۔

سینئر صحافی سعید حمید کہتے ہیں یہاں درگاہ ٹرسٹ اور اسکے اطراف میں وقف کی کروڑوں کی ملکیت ہے جسے ٹرسٹ نے بلڈروں کو فروخت کر دیا اس معاملے کی سنوائی کورٹ میں چل رہی ہے لیکن اس بات سی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس علاقے کا نام صوفی حضرت لال شاہ کے نام پر ہی لال باغ کو موسوم کیا جانے لگا ۔

سعید حمید کہتے ہیں اس علاقے میں مسلمانوں اور انکی ذاتی املاک آج بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔۔یہاں اکثريت غیر مسلموں کی ہے لیکن زیادہ تر عمارتوں کے مالک آج بھی مسلمان ہی ہیں۔اسی علاقے میں لال باغ کا راجہ کی بھی گنپتی 11 دنوں کی بٹھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ملک بیرون ممالک سے زائرین کی بڑی تعداد یہاں درشن کے لیے آتی ہیں صنعت کار، اداکار ،گلوکار،سیاست دانوں کا یہاں تانتا باندھا رہتا ہے۔

بالا صاحب کامبلے طویل عرصے سے لال باغ کا راجہ منڈل سے وابستہ ہیں ان دنوں وہ بہت مصروف ہیں کیونکہ منڈل میں زائرین کی لاکھوں کی تعداد روزآنہ آتی ہے۔ ایسے میں 11 دنوں تک منڈل کے ادنیٰ سے اعلیٰ عہدیداران کی مصروفیات زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بالا صاحب کامبلے کہتے ہیں کہ اس علاقے میں آج بھی درگاہ موجود ہے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اسی درگاہ اور صوفی حضرت لال شاہ کے نام سے ہی علاقے کا نام لال باغ رکھا گیا۔

کامبلے کہتے ہیں ایک روایت ہے جو طویل عرصے سے چلی آرہی ہے۔ ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں سے جب وسرجن کے لیے گزر ہوتا ہے تو لال باغ کے راجہ کے ساتھ پورے قافلے کے استقبال بڑے ہی شاہانہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اُنہیں شربت پیش کیا جاتا ہے۔منڈل کی جانب سے اُنہیں پرساد پیش کیا جاتا ہے یہ روایت کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے جو آج تک چلی آرہی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ یہاں پہلے ماہی گیروں کی بستی تھی انکی بازاریں تھیں لال باغ چا راجہ سروجنک گنیشوتسو منڈل کی مقبول گنیش کی مورتی ہے۔ منڈل جو پہلے سرواجنک گنیشوتسو منڈل، لال باغ' کے نام سے جانا جاتا تھا 1934 میں لال باغ مارکیٹ میں کولی برادری کے ماہی گیروں نے اسکی بنیاد رکھی تھی۔

منڈل کی بنیاد اس کی موجودہ جگہ پر موجودہ لال باغ مارکیٹ کی تعمیر کے لیے منت مانگی گئی جسکی وجہ سے یہاں اسکی بنیاد رکھی گئی تھی یہاں موجود پیرو چاول کا بازار 1932 میں بند کر دیا گیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ ماہی گیروں اور دکانداروں نے جو کھلی جگہ پر بیٹھتے تھے۔ وہ گنیش دیوتا کے سامنے منت مانی کہ وہ اپنے بازار کے لیے مستقل جگہ بنائیں گے۔ کوارجی جیٹھا بھائی شاہ، شیام راؤ وشنو بودھے، وی بی کورگاؤںکر، رام چندر تواتے، نکھوا کوکم ماما، بھاؤ صاحب شندے، یو اے راؤ اور مقامی باشندوں نے یہاں کی ملکیت کے مالک راجابائی طیب علی سے درخواست کی ۔

یہ بھی پڑھیں؛Milad Juloos 2023 in Aurangabad اورنگ آباد میں جلوس محمدی کی تاریخ تبدیل

اس درخواست کے بعد انہوں نے اس ماہی گیر کی بازار کے لیے ایک پلاٹ وقف کرنے پر بخوشی تیار ہوگئے ماہی گیروں اور تاجروں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے 12 ستمبر 1934 کو گنیش کی مورتی کی بنیاد رکھی۔ اس دوران گنیش کی مورتی کو ماہی گیروں کے روایتی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہر برس الگ تھیم کے ساتھ منڈل گنیش کی مورتی کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس بار رائے گڑھ قلعہ ہے جو کو شیواجی مہاراج کے دور حکومت میں دارلخلافہ ہوا کرتا تھی یہیں شیواجی کی تاجپوشی ہوئی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.