مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد شہر کو تاریخی دروازوں کا شہر کہا جاتا ہے، لیکن اب انہیں تاریخی دروازوں کا وجود خطرے میں ہے۔ اس کی تازہ مثال محمود دروازہ ہے جس کے کچھ حصے کو میونسپل کارپوریشن نے اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت مرمت کرنے کا دعوہ کرکے منہدم تو کردیا لیکن گزشتہ دو برسوں سے محمود دروازہ اپنے بدحالی پر نم ہے۔۔ Historical Mehmood gate begins to crumble under neglect
میرا نام محمود دروازہ ہے۔ سترہویں صدی میں جس آرکیٹک نے کھام ندی کے پل پر مجھے تعمیر کیا تھا، انہیں ماہر تعمیرات محمود خان کے نام سے مجھے منسوب کیا گیا، گزشتہ چار سو سال سے میں پوری طرح سے صحیح و سالم کھڑا تھا اور یہاں کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہا تھا۔ وقت کے تھپیڑوں اور قدرتی آفات کا بھی مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا لیکن موجودہ دور کے لوگ میرے وجود کو برداشت نہیں کرسکے۔
تین سال قبل میرا یعنی (محمود دروازے) کا ایک پٹ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد لوہے کے کھمبے سے مجھے عارضی سہارا دیا گیا اس کے بعد بھی میرے دامن سے راہ گیروں اور گاڑیوں کی آمد ورفت جاری رہی، تاہم دو سال پہلے ایک ٹرک نےلوہے کے کھمبےکو بھی توڑ دیا۔ نتیجے میں مجھے وقتی طور پر حصار بند کردیا گیا اور ٹریفک معطل کردی گئی۔ تاہم شہریان کے لیے متبادل راستہ نہیں ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر میرے دامن سے گزرنے لگے اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری۔ Historical Mehmood gate begins to crumble under neglect
دروازے کے حوالے سے سماجی کارکن خان عبدالمعید الحشر نے بتایا کہ تاریخی محمود دروازے کو ٹوڑ کر کافی عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک دروارے کا مرمت نہیں کرایا گیا۔ یہ دروازہ سرکاری اسپتال، مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ، یونیورسٹی اور دیگر کئی کالجز کو خود سے جوڑتا ہے۔
مزید پڑھیں:
وہیں محمدرفیق بندہ نوازی کے مطابق اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ہر روز وعدہ کیا جاتا ہے کہ جلد ہی اس گیٹ کی مرمت ہو جائیں گی اور دوبارہ راستہ بحال ہو جائے گا لیکن پچھلے کئی سالوں سے اس راستے کا کام نہیں ادھوار ہے اور لوگ اسی ٹوٹے ہوئے دروازے سے ہوکر گزرتے ہیں لیکن حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمارٹ سٹی کے نام پر شہر کے کئی سارے دروازوں کی ریپیرنگ کی جا رہی ہے لیکن محمود دروازے کی طرف اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن کے حکام دھیان تک نہیں دے رہے ہے۔