ETV Bharat / state

خصوصی پیشکش: ایک ایسی شادی جس نے مذہب کی دیواروں کو گرا دیا

author img

By

Published : Apr 5, 2021, 5:33 PM IST

ریاست مہاراشٹر کے ضلع کولہاپور میں شادی کی ایک ایسی تقریب منعقد ہوئی جس نے مذہب اور ذات پات کی تمام دیواروں کو توڑ دیا۔

Hindu-Muslim marriage ceremony
Hindu-Muslim marriage ceremony

ترقی پسند سوچ کی روایت کو کولہا پور نے ہمیشہ زندہ رکھا ہے اور یہ اسی باعث سُرخیوں میں بھی رہا ہے۔ مجاور اور یادو فیملی نے بھی اس روایت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ایک وِواہ ایسا بھی، ویڈیو

دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ مجاور فیملی کی لڑکی کی شادی یادو فیملی کے لڑکے سے ہوئی۔ یعنی لڑکی مسلم اور لڑکا غیر مسلم۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی شادی کسی خطرے کو دعوت دینے سے کم نہیں ہے لیکن انہوں نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہی کیا جو محبت کرنے والے جوڑے کو پسند آیا جس کی چہار جانب ستائش بھی کی جا رہی ہے۔

ان دو خاندانوں نے ذات پات اور مذہب کی دیواروں کو توڑتے ہوئے اپنے بچوں کی الگ الگ مذاہب کی شادی کا جشن خوب جم کر منایا۔ پہلے اسلامی طریقے سے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور اس کے بعد پھولوں کا ہار پہنا کر (یعنی ور مالا ڈال کر) ہندو رواج کے مطابق یہ جوڑا ایک دوجے کا ہوگیا۔

راج شری ساہو مہاراج کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے ان خاندانوں نے ہندو اور مسلم دونوں رسمیں ایک ہی منڈپ میں نبھا کر شادی کی تقریب منعقد کی۔

ترقی پسند سوچ کی روایت
ترقی پسند سوچ کی روایت

دراصل مجاور اور یادو فیملی کے درمیان کئی برسوں سے دوستانہ مراسم ہیں اور اسی خاندانی دوستی کے ذریعے لڑکا ستیہ جیت سنجے یادو اور لڑکی مارشا ندیم مجاور کی ملاقات اور دوستی ہوئی اور بعد میں یہ دوستی پیار میں تبدیل ہوگئی۔ دولہا ستیہ جیت اور دلہن مارشا گزشتہ 10 برسوں سے دوست ہیں۔

ستیہ جیت اور مارشا جب ایک دوجے کی محبت میں گرفتار ہوئے اس وقت انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ مستقبل میں وہ شادی کر پائیں گے یا نہیں لیکن ان کے اہلخانہ نے ان کے اس ڈر کو دور کر دیا۔ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ستیہ جیت پیشے سے سِوِل انجینئر اور مارشا آرکیٹیکٹ ہے۔

چونکہ دونوں ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں اپنے اہل خانہ کو اس کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔

اس تعلق سے مارشا کے والدین نے بتایا کہ وہ اس بارے میں جانتے تھے لیکن اس بات کے منتظر تھے کہ ان کی بیٹی خود ان سے اس تعلق سے بات کرے۔

آخر مارشا نے اپنے والد کو اس کے بارے میں بتایا اور انہوں نے ایک لمحہ کی سوچ کے بغیر مثبت اندز میں اس رشتے کو قبول کرلیا۔

شاہو مہاراج کے افکار کی پیروی کرنے والے مجاور نے یہ تک نہیں سوچا کہ ستیہ جیت ہندو ہے لیکن انہوں نے اس شرط پر شادی کے لیے رضامندی ظاہر کی کہ ستیہ جیت کے اہلخانہ بھی اس رشتے سے راضی ہوں۔

اس کے بعد یادو خاندان بھی اس شادی کے لیے متفق ہوگیا۔ اگرچہ دونوں فیملی میں دوستانہ مراسم ضرور ہیں لیکن انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ لوگ اس فیصلے اور رشتے کو قبول کریں گے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے یہ سوچ کر کہ شادی کر دی کہ ان کے بچوں کی خوشی سے زیادہ ان کے لیے کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔

گزشتہ برس لاک ڈاؤن کے دوران مارشا اور ستیہ جیت کی منگنی ہوئی تھی اور دو روز قبل یہ جوڑا رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگیا اور ایک شاندار تقریب میں شادی کی رسمیں ادا کی گئیں۔

اس دوران پہلے مسلم رسم و رواج اور اس کے بعد ہندو رسوم کے ذریعے یہ شادی انجام پائی۔ کسی کے بھی ذہن میں یہ بات نہیں آئی کی وہ کچھ مختلف کر رہے ہیں۔

پہلے عالم دین کی موجودگی میں نکاح کی تقریب ہوئی اس کے بعد ہندو رسم کے ساتھ شادی ہوئی۔

شادی کی تقریب میں موجود مہمان ایک ہی وقت میں دونوں طرح کی شادیوں کے گواہ بنے۔

ترقی پسند سوچ کی روایت کو کولہا پور نے ہمیشہ زندہ رکھا ہے اور یہ اسی باعث سُرخیوں میں بھی رہا ہے۔ مجاور اور یادو فیملی نے بھی اس روایت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ایک وِواہ ایسا بھی، ویڈیو

دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ مجاور فیملی کی لڑکی کی شادی یادو فیملی کے لڑکے سے ہوئی۔ یعنی لڑکی مسلم اور لڑکا غیر مسلم۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی شادی کسی خطرے کو دعوت دینے سے کم نہیں ہے لیکن انہوں نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہی کیا جو محبت کرنے والے جوڑے کو پسند آیا جس کی چہار جانب ستائش بھی کی جا رہی ہے۔

ان دو خاندانوں نے ذات پات اور مذہب کی دیواروں کو توڑتے ہوئے اپنے بچوں کی الگ الگ مذاہب کی شادی کا جشن خوب جم کر منایا۔ پہلے اسلامی طریقے سے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی اور اس کے بعد پھولوں کا ہار پہنا کر (یعنی ور مالا ڈال کر) ہندو رواج کے مطابق یہ جوڑا ایک دوجے کا ہوگیا۔

راج شری ساہو مہاراج کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے ان خاندانوں نے ہندو اور مسلم دونوں رسمیں ایک ہی منڈپ میں نبھا کر شادی کی تقریب منعقد کی۔

ترقی پسند سوچ کی روایت
ترقی پسند سوچ کی روایت

دراصل مجاور اور یادو فیملی کے درمیان کئی برسوں سے دوستانہ مراسم ہیں اور اسی خاندانی دوستی کے ذریعے لڑکا ستیہ جیت سنجے یادو اور لڑکی مارشا ندیم مجاور کی ملاقات اور دوستی ہوئی اور بعد میں یہ دوستی پیار میں تبدیل ہوگئی۔ دولہا ستیہ جیت اور دلہن مارشا گزشتہ 10 برسوں سے دوست ہیں۔

ستیہ جیت اور مارشا جب ایک دوجے کی محبت میں گرفتار ہوئے اس وقت انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ مستقبل میں وہ شادی کر پائیں گے یا نہیں لیکن ان کے اہلخانہ نے ان کے اس ڈر کو دور کر دیا۔ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ستیہ جیت پیشے سے سِوِل انجینئر اور مارشا آرکیٹیکٹ ہے۔

چونکہ دونوں ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں اپنے اہل خانہ کو اس کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔

اس تعلق سے مارشا کے والدین نے بتایا کہ وہ اس بارے میں جانتے تھے لیکن اس بات کے منتظر تھے کہ ان کی بیٹی خود ان سے اس تعلق سے بات کرے۔

آخر مارشا نے اپنے والد کو اس کے بارے میں بتایا اور انہوں نے ایک لمحہ کی سوچ کے بغیر مثبت اندز میں اس رشتے کو قبول کرلیا۔

شاہو مہاراج کے افکار کی پیروی کرنے والے مجاور نے یہ تک نہیں سوچا کہ ستیہ جیت ہندو ہے لیکن انہوں نے اس شرط پر شادی کے لیے رضامندی ظاہر کی کہ ستیہ جیت کے اہلخانہ بھی اس رشتے سے راضی ہوں۔

اس کے بعد یادو خاندان بھی اس شادی کے لیے متفق ہوگیا۔ اگرچہ دونوں فیملی میں دوستانہ مراسم ضرور ہیں لیکن انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ لوگ اس فیصلے اور رشتے کو قبول کریں گے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے یہ سوچ کر کہ شادی کر دی کہ ان کے بچوں کی خوشی سے زیادہ ان کے لیے کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔

گزشتہ برس لاک ڈاؤن کے دوران مارشا اور ستیہ جیت کی منگنی ہوئی تھی اور دو روز قبل یہ جوڑا رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگیا اور ایک شاندار تقریب میں شادی کی رسمیں ادا کی گئیں۔

اس دوران پہلے مسلم رسم و رواج اور اس کے بعد ہندو رسوم کے ذریعے یہ شادی انجام پائی۔ کسی کے بھی ذہن میں یہ بات نہیں آئی کی وہ کچھ مختلف کر رہے ہیں۔

پہلے عالم دین کی موجودگی میں نکاح کی تقریب ہوئی اس کے بعد ہندو رسم کے ساتھ شادی ہوئی۔

شادی کی تقریب میں موجود مہمان ایک ہی وقت میں دونوں طرح کی شادیوں کے گواہ بنے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.