اس معاملے کی وجہ سے اورنگ آباد کے گھاٹی دواخانے میں کشیدگی پھیل گئی تھی لیکن رکن اسمبلی امتیاز جلیل کی مداخلت اور پولیس کمشنر کے تیقن کے بعد طالبہ کے رشتہ دار مان گئے۔ پولیس مفرور پولیس اہلکار کی تلاش میں مصروف ہے ۔
گھر سے ٹیوشن جانے کے لیے نکلی اسکوٹی سوار کالج کی طالبہ عاکفہ مہرین کو جامع مسجد کے قریب ایک سوئفٹ کار نے روند ڈالا اور راہ فرار اختیار کرلی۔ یہ حادثہ 22 اپریل کو پیش آیا تھا۔
جائے حادثے پر موجود افراد نے زخمی طالبہ کو گھاٹی ہسپتال میں داخل کیا۔ بعد ازاں رشتہ داروں نے اسے ایک نجی ہسپتال میں منتقل کیا لیکن طالبہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسی، عینی شاہدین کا دعوی ہیکہ نامعلوم پولیس اہلکار کار چلارہا تھا۔ حادثے کے کچھ دیر بعد ایک خاتون پولیس اہلکار نے جائے وقوع پر پہنچ کر وہاں موجود نوجوانوں کو ڈرا دھمکا کر ان کے موبائل سے ثبوت مٹانے کی کوشش بھی کی ایسا الزام بھی عائد کیا گیا ۔
اس حادثے کی پولیس کو اطلاع دی گئی۔لیکن رشتہ داروں کا الزام ہیکہ پولیس نے تعاون نہیں کیا جس سے برہم ہوکر رشتہ داروں نے متوفی کی لاش لینے سے انکار کردیا اور پوسٹ مارٹم روم کے پاس دھرنا شروع کردیا۔ اس کے علاوہ پولیس کمشنر سےبھی شکایت کی گئی۔ جس سے پولیس حرکت میں آئی اور ہلاک شدہ بچی کے والد و دیگر رشتہ داروں کو یہ یقین دلایا گیا کہ قانون کی پاسداری کی جائے گی ۔
پولیس کمشنر کی یقین دہانی کے بعد رشتہ داروں نے مہلوک کی لاش تحویل میں لے لی، پولیس نے ثبوت مٹانے کی کوشش کرنے والی لیڈی پولیس اہلکار کے خلاف بھی مناسب ایکشن لینے کا بھروسہ دلایا ہے، لیکن ابھی تک اس معاملے میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔