جسٹس ارون کمار مشرا، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بینچ نے تمام فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ برس یکم اکتوبر کو دیویندر فڑنویس کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا تھا کہ ذیلی عدالت فڑنویس کے خلاف دائر مقدمہ کو نئے سرے سے دیکھے۔
اُس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بینچ نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کرتے ہوئے یہ حکم دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے ستیش اوئیكے کی وہ درخواست مسترد کر دی تھی جس میں انہوں نے فرنویس کی جانب سے انتخابی حلف نامہ میں مجرمانہ مقدمات کی معلومات چھپانے کے لیے ان کاانتخاب منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اس کے بعد ستیش اوئیكے نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
درخواست گزار کا الزام تھا کہ 'فرنویس نے 2014 اسمبلی انتخابات میں اپنے اوپر زیر التواء دو مجرمانہ مقدموں کی تفصیلات چھپائی تھی۔
واضح رہے کہ 'فڑنویس پر 2014 کے انتخابی حلف نامہ میں دو مجرمانہ مقدموں کی معلومات چھپانے کا الزام ہے، یہ دو مقدمہ ناگپور کے ہیں جن میں ایک ہتک عزت کا اور دوسرا دھوکہ دہی کا ہے، عرضی میں فرنويس کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران دیویندر فڑنويس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 'وزیراعلیٰ و سیاسی شخصیات کے خلاف متعدد مقدمات ہوتے ہیں، کسی کے انتخابی حلف نامہ میں وہ تفصیلات نہ دینے پر کارروائی نہیں ہو سکتی۔
وہیں درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انہوں نے انتخابی حلف نامہ میں معلومات چھپائی ہے لہذا کارروائی ہونی چاہیے۔
عدالت نے پوچھا تھا کہ معلومات جان بوجھ کر چھپائی گئی یا پھر یہ غلطی سے ہوا ہے، اس معاملہ کو کیوں نہ ٹرائل کے لیے بھیجا جائے۔