اورنگ آباد سے مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان امتیاز جلیل کو پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ شاہ گنج مسجد میں نماز ادا کرنے جا رہے تھے لیکن وہ شاہ گنج کی مسجد نہیں پہنچ سکے تھے اور پولیس نے راستے میں ہی انہیں تحویل میں لے لیا تھا، امتیاز جلیل نے مذہبی مقامات کھولنے کا حکومت سے مطالبہ کیا تھا۔
امتیاز جلیل نے دعوی کیا کہ مہاراشٹر حکومت کو بیدار کرنا تھا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی انہوں نے مندر میں جا کر مندر کھلوانے کا اعلان کیا تھا لیکن پھر وہ پیچھے ہٹ گئے تھے اور مندر جانے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا تھا، جس کے بعد شیو سینا نے ان پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔
ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ مسجد کو چاروں طرف سے سیکورٹی کے حصار میں لے لیا گیا وجہ صاف تھی ایم آئی ایم ایم پی امتیاز جلیل کا حکومت کو الٹی میٹم۔
امتیاز جلیل اپنے اعلان کے مطابق دوپہر ایک بجے کلکٹر آفس میں واقع دفتر سے مسجد کے لیے روانہ ہوئے اس دوران ان کے کچھ حامی بھی ساتھ تھے۔
اس سے پہلے پولیس نے انہیں منانے کی کوشش کی کہ وہ مسجد میں اجتماعی نماز کا اعلان واپس لے لیں لیکن امتیاز جلیل نہیں مانے اور مسجد کے لیے نکل پڑے تاہم پولیس نے راستے میں ہی انہیں تحویل میں لے لیا بعد ازاں امتیاز جلیل اور ان کے حامیوں کو پولیس کمشنر آفس لیجایا گیا جہاں کمشنر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت میں امتیاز جلیل نے اپنی مہم کی کامیابی کا دعوی کیا۔
ایم آئی ایم رکن پارلیمان کے انتباہ کے پیش نظر پولیس نےصبح سے ہی ان کے دفتر کے اطراف، دارالسلام دفتر کے قریب اور ان کی رہائش گاہ کے اطراف پولیس سیکورٹی میں اضافہ کردیا تھا اور ایک طرح سے تمام مقامات پولیس چھاونی میں تبدیل ہوچکے تھے تاہم ہجوم زیادہ نہ ہونے اور چند حامی ہونے کی وجہ سے پولیس نے اس پورے معاملے کو آسانی سے حل کرلیا۔
اس بابت اورنگ آباد پولیس کمشنر چرنجیوی پرساد کا کہنا ہیکہ شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
اس پورے معاملے کو مستقبل قریب میں ہونے والے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات سے جوڑ کر بھی دیکھا جارہا ہے لیکن ایم آئی ایم رکن پارلیمان نے اس بات کو مسترد کردیا ہے تاہم مذہبی مقامات کو کھولنے کے معاملے میں عوام میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔