حکومت کی عدم توجہی کے سبب اس گاؤں کے افراد کو تقریباً دو کلومیٹر جنگل کا راستہ عبور کرنا پڑتا ہے۔
گاؤں سے نکلنے والے راستے پر 45 برس قبل تعمیر ہونے والا آہنی پل انتہائی مخدوش ہو چکا ہے لیکن اس کے بعد بھی مذکورہ گاؤں کے طلبہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسی مخدوش پل سے کر اسکول جانے پر مجبور ہیں۔
گاؤں کا واحد راستہ ہونے کے سبب جب طلبہ اپنے گھروں سے صبح سویرے نکلتے ہے تو والدین فکر مند ہوتے ہیں کہیں کوئی ناگہانی واقعہ نا پیش آئے۔
دوسرا راستہ جو انتہائی خطرناک ہے وہ ہے تیز بہاؤ والے پانی میں سے گزرنے پر مجبور ہیں اور طلبہ جان ہتھیلی پر رکھ اسکول جاتے ہیں،
جبکہ اگر کسی کو ان خطرناک راستوں نا گزرنا ہو تو اسے کافی طویل راستہ طئے کرنا پڑتا ہے۔
ممبئی سے محض 100 کلو میٹر دوری پر ہونے کے بعد بھی ایک عدد پل اور سڑک کے لیے گاؤں کے لوگ ترس رہے ہیں۔
اس کا نقصان یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو ایمبولینس بھی اس گاؤں میں نہیں پہنچ پاتی ہے۔
ایک جانب مرکزی اور ریاستی حکومت یومیہ 45 کلو میٹر سڑک کے تعمیر کا دعویٰ کر رہی لیکن ملک کی معاشی دارالحکومت کہلانے والے ممبئی شہر سے محض 100 کلو میٹر کی دوری پر واقع ایک گاؤں محض ایک عدد پل کے لیے ترس رہا ہے۔