تعزیہ سازی میں ریاست مہاراشٹرا کا شہر مالیگاؤں منفرد مقام رکھتا ہے، جہاں عقیدت مند شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خوبصورتی اور مہارت سے تعزیے تیار کرتے ہیں۔ ہر تعزیہ ملتان دستکاری کا خوبصورت نمونہ ہے، لیکن براق والی تعزیہ شہر مالیگاؤں کی تعزیہ داری کی تاریخ میں خاص مقام رکھتا ہے۔ تعزیہ داروں کے مطابق یہ مالیگاؤں کا سب سے قدیم ترین تعزیہ ہے، جو کہ ہر سال لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔
تعزیہ داری کی تاریخ بہت قدیم ہے، پرانے زمانے میں کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں بھی جدت آنا شروع ہوگئی اور اب دور جدید میں تعزیہ کی تیاری کے لیے سونا، چاندی اور دیگر اشیاء استعمال ہونے لگے۔
اس تعلق سے تعزیہ دار پیر محمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ یہ براق والی تعزیہ شہر کی سب پرانی تعزیہ ہے اس کو پورے 160 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ چھ پیڑھی سے مسلسل اسے بنایا جارہا ہے اس تعزیہ کو بنانے کی شروعات ان کی دادی کے والد نے کی تھی۔ جس کے بعد سے اب تک یہ سلسل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کبھی ان کو کچھ ہوگیا تو اس تعزیہ کی ذمہ داری ان کا بیٹا سنبھالے گا۔ پیر محمد نے بتایا کہ تعزیہ سازی ایک فن ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آرہا ہے۔ شہر کے کچھ مذہبی عقیدت مند لوگ اس نظام کو کئی نسلوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ محرم کے جلوسوں میں تعزیوں کی زیارت مسلمانوں کے ایک طبقہ کے نزدیک نہ صرف متبرک سمجھی جاتی ہے بلکہ ان پر میوے چڑھانا، دھاگے باندھنا اور منت ماننا بھی سالہا سال سے چلی آرہی روایات کا ایک حصہ ہے۔
مزید پڑھیں:مالیگاؤں کا سونے چاندی والا تعزیہ پورے بھارت میں مشہور
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تعزیہ بنانے کی تیاریاں عیدالاضحیٰ کے فوری بعد شروع کردی جاتی ہیں اور نو محرم تک اسے لازماً تیار کرکے عوامی زیارت کے لئے گھروں کے باہر یا امام بارگاہوں کے قریب رکھ دیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر ایک تعزیہ ایک ماہ میں تیار ہوتا ہے۔
پیر محمد کا کہنا ہے کہ تعزیے پر رنگ برنگی پنیاں یا چمکنے والے خصوصی قسم کے کاغذ زیادہ لگائے جاتے ہیں تاکہ تعزیہ دور سے ہی چمکے اور نو اور دس محرم کی درمیانی شب رت جگا ہوتا ہے اور ساری رات تعزیے کی زیارت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس رات محلے کے بچوں سے لیکر بزرگ تک سب گلیوں میں ہی بسیرا کرتے ہیں اور ایک میلہ سا لگا رہتا ہے۔