ETV Bharat / state

بھوپال کی تاریخی وراثت پر خاص رپورٹ - اردو نیوز مدھیہ پردیش

ریاست مدھیہ پردیش کی دارالحکومت بھوپال ایک تاریخی شہر ہے اور اس تاریخی شہر میں نو فرمانروا اور چار خاتون نوابین نے حکمرانی کی اور ریاست مدھیہ پردیش کو ایک مسلم ریاست کا درجہ دیا۔

special report on the historical heritage of bhopal
بھوپال کی تاریخی وراثت پر خاص رپورٹ
author img

By

Published : Jan 1, 2021, 7:19 PM IST

بھوپال کا شمار مدھیہ پردیش میں ہی نہیں بلکہ وسط ہند کے ایک تاریخی اور تہذیبی شہر میں ہوتا ہے۔ بھوپال کو نوابوں کی نگری، جیلوں اور تالابوں کے شہر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

دیکھیں ویڈیو

اس کے امتیاز نے جہاں قدرت کا حسن شامل ہے وہی اسے مساجد کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بھوپال کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے۔

یوں تو یہ خطہ پر مار، گوند اور مسلم حکمرانوں کی حکومت کا گواہ رہا ہے، لیکن اس شہر کو پہلے پہل بسانے کا سہرا پر مار راجہ راجہ بھوج کو جاتا ہے۔

پر مار خاندان کے راجہ بھوج نے مالوہ اور گونڈوانا کے حد فاضل پر اپنے دور حکومت 1010 سے1060 کے بیچ اس شہر کو بسایا تھا، جو کثرت استعمال سے بھوپال ہوگیا۔

بھوپال کو پر مار راجہ راجہ بھوج کے ذریعہ ضرور بسایا گیا، لیکن بھوپال کو عالمی شہرت نوابی عہد میں ملی۔ بھوپال میں مسلم ریاست کا آغاز سردار دوست محمد خان سے ہوتا ہے۔

دوست محمد خان کا تعلق افغانستان کے علاقہ تیراہ سے تھا۔ دوست محمد خان مغل شہنشاہ اورنگزیب کے عہد میں افغانستان سے بھارت آئے اور عالمگیر اورنگزیب کی فوج میں شامل ہونے اور اپنی محنت، شجاعت اور لگن سے اورنگزیب کی فوج کے اول دستے میں مقام حاصل کیا۔

دوست محمد خان نے اس وقت مغل فوج سے علیحدگی اختیار کر لی جب اورنگزیب کے انتقال کے بعد شہزادوں میں اقتدار کے لیے سازشیں شروع ہوئی اور ملک میں چار جانب ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔

سردار دوست محمد خان 1708 میں شاہی فوج سے مستعفیٰ ہو کر اپنے عزیزواقارب اور قسمت آزمانے کے لیے وقت ہند کے علاقہ معلوم کی جانب نکل پڑے۔ دوست محمد خان کی قسمت کا ستارہ بلندی پر تھا، یہاں مالوہ میں ایک ریاست ان کی منتظر تھی۔

مالوہ میں آنے کے بعد دوست محمد خان نے پہلے راجپوتوں کے یہاں ملازمت اختیار کی، پھر تاج محمد خان سے ان کی جاگیر کا علاقہ بیرسیہ کے قاضی محمد صالحہ اور گوپال رائے ساہوکار کی مدد سے اجارہ پر لے کر اپنی عملی زندگی کا سفر شروع کیا۔ دوست محمد خان نے یہاں پر رفتہ رفتہ اپنی محنت، شجاعت سے آس پاس کے علاقوں کو فتح کیا۔

دوست محمد خان نے گنور کی رانی کملا پتی کو اپنی بہن بنایا تھا، جب تک رانی حیات رہی اس علاقے پر ان کی حکومت جاری رہی۔ رانی کے انتقال کے بعد دوست محمد خان نے گنور کے علاقے کو اپنے حکومت میں شامل کر لیا۔ گونڈ رانی کملا پتی نے دوست محمد خان کو بھوج پال کا جو علاقہ انعام میں دیا تھا۔ دوست محمد خان نے اس علاقے میں سب سے پہلے اسلام نگر کو بسایا۔

دوست محمد خان نے اسلام نگر میں قلعہ کے ساتھ محل بھی بنایا۔ اسلام نگر آج بھی موجود ہے اور وہ تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ بھوپال میں دوست محمد خان سے لے کر آخری فرمانروا نواب حمیداللہ خان تک کل تیرہ نوابین نے حکومت کی جس میں نو مرد اور چار خاتون نوابین شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:

فوج نے بزرگ کے لیے آشیانہ بنایا

ریاست بھوپال میں دوست محمد خان سے لے کر آخری فرماں رواں تک جتنے بھی نوابین ہوئے ہیں، سبھی نے اپنی ریاست کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کی لیکن ترقیاتی اعتبار سے بھوپال میں جو ہمہ جہت ترقی خواتین نوابین کے عہد میں ہوئی وہ مرد نوابین کے عہد میں نہیں ہوسکی۔

بھوپال کا شمار مدھیہ پردیش میں ہی نہیں بلکہ وسط ہند کے ایک تاریخی اور تہذیبی شہر میں ہوتا ہے۔ بھوپال کو نوابوں کی نگری، جیلوں اور تالابوں کے شہر کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

دیکھیں ویڈیو

اس کے امتیاز نے جہاں قدرت کا حسن شامل ہے وہی اسے مساجد کے شہر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بھوپال کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم ہے۔

یوں تو یہ خطہ پر مار، گوند اور مسلم حکمرانوں کی حکومت کا گواہ رہا ہے، لیکن اس شہر کو پہلے پہل بسانے کا سہرا پر مار راجہ راجہ بھوج کو جاتا ہے۔

پر مار خاندان کے راجہ بھوج نے مالوہ اور گونڈوانا کے حد فاضل پر اپنے دور حکومت 1010 سے1060 کے بیچ اس شہر کو بسایا تھا، جو کثرت استعمال سے بھوپال ہوگیا۔

بھوپال کو پر مار راجہ راجہ بھوج کے ذریعہ ضرور بسایا گیا، لیکن بھوپال کو عالمی شہرت نوابی عہد میں ملی۔ بھوپال میں مسلم ریاست کا آغاز سردار دوست محمد خان سے ہوتا ہے۔

دوست محمد خان کا تعلق افغانستان کے علاقہ تیراہ سے تھا۔ دوست محمد خان مغل شہنشاہ اورنگزیب کے عہد میں افغانستان سے بھارت آئے اور عالمگیر اورنگزیب کی فوج میں شامل ہونے اور اپنی محنت، شجاعت اور لگن سے اورنگزیب کی فوج کے اول دستے میں مقام حاصل کیا۔

دوست محمد خان نے اس وقت مغل فوج سے علیحدگی اختیار کر لی جب اورنگزیب کے انتقال کے بعد شہزادوں میں اقتدار کے لیے سازشیں شروع ہوئی اور ملک میں چار جانب ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔

سردار دوست محمد خان 1708 میں شاہی فوج سے مستعفیٰ ہو کر اپنے عزیزواقارب اور قسمت آزمانے کے لیے وقت ہند کے علاقہ معلوم کی جانب نکل پڑے۔ دوست محمد خان کی قسمت کا ستارہ بلندی پر تھا، یہاں مالوہ میں ایک ریاست ان کی منتظر تھی۔

مالوہ میں آنے کے بعد دوست محمد خان نے پہلے راجپوتوں کے یہاں ملازمت اختیار کی، پھر تاج محمد خان سے ان کی جاگیر کا علاقہ بیرسیہ کے قاضی محمد صالحہ اور گوپال رائے ساہوکار کی مدد سے اجارہ پر لے کر اپنی عملی زندگی کا سفر شروع کیا۔ دوست محمد خان نے یہاں پر رفتہ رفتہ اپنی محنت، شجاعت سے آس پاس کے علاقوں کو فتح کیا۔

دوست محمد خان نے گنور کی رانی کملا پتی کو اپنی بہن بنایا تھا، جب تک رانی حیات رہی اس علاقے پر ان کی حکومت جاری رہی۔ رانی کے انتقال کے بعد دوست محمد خان نے گنور کے علاقے کو اپنے حکومت میں شامل کر لیا۔ گونڈ رانی کملا پتی نے دوست محمد خان کو بھوج پال کا جو علاقہ انعام میں دیا تھا۔ دوست محمد خان نے اس علاقے میں سب سے پہلے اسلام نگر کو بسایا۔

دوست محمد خان نے اسلام نگر میں قلعہ کے ساتھ محل بھی بنایا۔ اسلام نگر آج بھی موجود ہے اور وہ تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ بھوپال میں دوست محمد خان سے لے کر آخری فرمانروا نواب حمیداللہ خان تک کل تیرہ نوابین نے حکومت کی جس میں نو مرد اور چار خاتون نوابین شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:

فوج نے بزرگ کے لیے آشیانہ بنایا

ریاست بھوپال میں دوست محمد خان سے لے کر آخری فرماں رواں تک جتنے بھی نوابین ہوئے ہیں، سبھی نے اپنی ریاست کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی کوشش کی لیکن ترقیاتی اعتبار سے بھوپال میں جو ہمہ جہت ترقی خواتین نوابین کے عہد میں ہوئی وہ مرد نوابین کے عہد میں نہیں ہوسکی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.