ریاست مدھیہ پردیش کی دارالحکومت بھوپال کی تنظیم مجلس اقبال اور منشی حسین خان ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے مشترکہ بینر تلے 'یاد نسیم انصاری' کے عنوان سے مذاکرہ Seminar Organized in Memory of Poet Naseem Ansari کا انعقاد کیا گیا۔ مذاکرہ میں بھوپال کے اہم شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی اور نسیم انصاری کی فکر و فن، ، ادبی، صحافتی اور سماجی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ مذاکرہ میں دانشوروں نے جہاں نسیم انصاری کی نظم نگاری پر تفصیل سے گفتگو کی، وہیں انہوں نے نسیم انصاری کی مزاح نگاری اور سماجی خدمات پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اردو ادب کی تاریخ میں نسیم انصاری کی شناخت ایک نظم نگار کے طور پر ہوتی ہے۔ نسیم انصاری کی نظموں کا مجموعہ "خواب تو جزیرہ ہے" کے نام پر سنہ 2003 میں شائع Naseem Ansari Books ہوا۔نسیم انصاری ایک صحافی بھی تھے۔ انہوں نے سنہ 1970 میں بھوپال میں محفوظ منظر کے اخبار میں لکھنا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 1982 سے سنہ 1990 تک بھوپال کے ایک اردو روزنامہ میں "دیدہ و دانستہ" کے نام سے مستقل کالم لکھتے رہے۔ دیدہ دانستہ کے نام سے لکھے ہوئے ان کے تمام مضمون کا مجموعہ اسی نام سے زیر اشاعت ہے۔
مزید پڑھیں: بھوپال: افسانوی مجموعہ 'داستان رنگ' کا رسم اجرا
نسیم انصاری نے شاعری کی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن نظم ان کی پسندیدہ صنف تھی اور اس پر انہیں قدرت حاصل تھی۔ بھوپال میں اگر نظم کی بات کی جائے تو کوئی ایسا نظم نگار نہیں ہے جو نسیم انصاری کی اسٹائل میں اس روانی سے نظم کہہ سکے جس طرح سے نسیم انصاری نظم کہتے تھے۔