بھوپال : بھارت سرکار کی سنگیت ناٹک اکاڈمی جو ہر سال فن میں ماہر، ثقافت اور تھیٹر میں اپنی خدمات دینے والوں کو اعزاز سے سرفراز کرتی ہے۔ اس سلسلے میں بھوپال کے نوجوان سرفراز حسین کو تھیٹر میں ان کی خدمات کے اطراف میں این ایس اے (SNA) کے قومی اعزاز استاد بسم اللہ خان یوا اعزاز سے نوازا گیا۔
اس موقع پر جب ای ٹی وی بھارت نے ان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 1994 سے تھئیٹر میں کام کرنا شروع کیا۔جیسے جیسے اس میدان میں آگے بڑھے تو ہندوستان کی مشہور و معروف ڈرامہ ہدایت کار حبیب تنویر کے شاگرد بننے کا موقع ملا۔ سرفراز حسین کہتے ہیں کہ کوئی بھی کام پارٹ ٹائم نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے انہوں نے تھیئٹر کو اپنایا اور اپنے ذرائع معاش کا ذریعہ بھی تھیٹر کو ہی رکھا۔
انہوں نے کہا میرے استاد حبیب تنویر کہتے تھے کہ ایک اداکار کی زندگی میں 24 گھنٹے نہیں ہوتے ہیں بلکہ 26 گھنٹے ہوتے ہے۔ کیونکہ اسے اپنی زندگی میں ہمیشہ ایکٹیو رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے اس پیشے کو میں نے اپنایا ہے۔ خیر کے ساتھ اپنایا ہے۔ سرفراز حسین تھیٹر میں پچھلی 29 سالوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں جس میں انہوں نے اپنے استاد حبیب تنویر کے ساتھ 1600 سے زائد ڈراموں میں کردار ادا کیا ہے۔ پھر 2001 میں اپنی خود کی تھیٹر کمپنی ینگز تھیئٹر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔اب تک 42 ڈراموں میں ڈائریکشن کیا ہے۔
اب تک 4 ڈرامے لکھے بھی ہے۔ سرفراز حسین نے اعزاز ملنے پر کہا اس طرح کے اعزازات ہماری حوصلہ افزائی تو کرتے ہیں ساتھی ہماری ذمہ داری میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر وہ اعزاز بھارت سرکار کی طرف سے ملا ہو وہ بھی ہماری فیلڈ کی سب سے بڑی تنظیم کی جانب سے تو بہت خوشی ہوتی ہے اور جو اعزاز مجھے دیا گیا ہے۔ وہ واقعہ میں ہم شہر کے لوگوں کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس سوال پر کی جس طرح سے ہندی ڈرامے مقبول ہوئے ہیں اسی طرح سے اب اردو ڈرامے بھی بہت زیادہ دیکھے اور پسند کئے جارہے ہیں۔ اس پر سرفراز حسین نے کہا میری مادری زبان اردو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ فن کی زبان بھی ہندوستانی ہوتی ہے۔ یعنی جس میں خالص اردو ہو نہ ہندی ہو۔ وہ زبان جو ہم آپ بول سکتے ہیں سمجھ سکتے ہیں۔رہی بات اردو زبان کی یہ زبان بڑی میٹھی زبان ہے۔لوگوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اب تک اپنی جرنی میں 8 ڈرامے اردو کے کر چکا ہوں۔ اردو ڈرامہ کرنے میں یہ خاصیت رہی ہے۔ میرے گروپ سے جڑے اداکار سبھی اردو کو نہ جانے والے ہیں۔ یعنی سبھی غیر مسلم ہے ۔ جب ہم اردو ڈرامے کرتے ہیں تو ہمیں اس زبان میں ڈرامہ کرنے میں ایک الگ ہی مزا آتا ہے۔جب ہم اسٹیج پر اپنا ہنر دکھا تے ہیں۔ لوگ اس پر تالیاں بجاتے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد جب لوگ ہمارے اداکاروں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ ان کی اردو اتنی اچھی ہے اور جب انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سب اردو زبان کو نہ جاننے والے ہیں۔پھر بھی اتنی اچھی پیشکش دے رہے ہیں۔ ان کی تعریف کی جاتی ہے تو ایک الگ ہی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Sympathy Foundation ضرورت مند اور غریب طبقے کے لئے روزگار کے وسائل کی فراہمی
واضح رہے کہ بھارت سرکار کی سنگیت ناٹک اکیڈمی کہ یہ ایوارڈ کورونا وبا کے سبب نہیں نہیں دیے گئے تھے۔ اس لئے اکاڈمی کے ذریعہ 2019 سے 2021 تک کے یعنی تین سال کے ایوارڈ تقسیم کئے گئے جس میں پورے ہندوستان سے 112 لوگوں کا انتخاب کیا گیا۔ریاست مدھیہ پردیش سے دو لوگ منتخب ہوئے جس میں مجھے قومی اعزاز استاد بسم اللہ خان سے نوازا گیا۔