بھوپال گیس سانحہ کے بعد حکومت گوداموں میں جمع 337 میٹرک ٹن زہریلے کچرے کو ختم کرنے کے 350 کروڑ روپے کا ٹینڈر کھولنے جا رہی ہے جبکہ گیس متاثرین تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 1990 کے بعد حکومت کی ایجنسیوں کی 17 رپورٹس ہے جس میں میں زمینی آلودگی کو بتایا گیا ہے اور زمینی آلودگی میں سب سے زیادہ پانی زہریلا ہو رہا ہے۔
بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کی کنوینر رچنا ڈینگرا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سرکاری ایجنسیوں کی جانچ میں فیکٹری کے احاطے میں پانی میں آلودگی بڑی تعداد میں پائی گئی ہے جس میں 'پرسٹنٹ آرگنائزیشن پولوٹینٹس' پائی گئی ہیں جو 100 سال سے زیادہ زہریلا پن بنائے رکھتے ہیں۔
گرین پیس کی رپورٹ میں مٹی میں پارے کی مقدار کئی ملین زیادہ بتائی گئی ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ حکومت اس پر دھیان دے نہ کہ کچرے پر۔ وہ کچرا تو کچھ بھی نہیں ہے۔
وہیں 1990 کے بعد سے 17 رپورٹس ایسی ہیں جس میں زمین میں دبے کچرے کو زیادہ خطرناک بتایا ہے لیکن ذمہ دار ہزاروں ٹن زہریلے کچرے کو کھدائی کر کے ہٹانے کی بجائے صوبائی حکومت فیکٹری کو میوزیم بنانے جارہی ہے۔
رچنا ڈینگرا نے کہا کہ فیکٹری کے آس پاس کے علاقے میں ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے یہ پتہ چلے گا کہ کون سا کیمیکل کتنی گہرائی اور کتنی دوری تک موجود ہے۔ تب ہی اس کی صفائی ممکن ہو گی۔ جو کچرا اوپر رکھا ہے وہ تو کارخانے کے احاطے سے سمیٹا گیا بیکار کا کچرا ہے اس سے زیادہ خطرناک زمین کے اندر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھوپال گیس سانحہ کی برسی، متاثرین ہنوز انصاف کے منتظر
واضح رہے کہ بھوپال گیس سانحہ میں فیکٹری سے نکلا زہریلا کچرا صوبائی حکومت نے نے گوداموں بند کر رکھا تھا جس کی صفائی اور اسے ختم کرنے کے لیے صوبائی حکومت ٹینڈر نکال رہی ہے لیکن گیس متاثرین تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت اوپر کے کچرے کی بجائے اس کچرے پر کام کرے جو زمین میں آلودگی پھیلا کر پانی میں زہر گھول کر لوگوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔