بھوپال: پورے ملک کے ساتھ ریاست مدھیہ پردیش سے عازمین حج کا سفر حج پر جانے کے لیے حج پروازوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہیں ریاست مدھیہ پردیش کی حج کمیٹی کی بات کی جائے تو حج کمیٹی کے ذریعہ ریاست کے عازمین کے لیے حج ہاؤس میں رکنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اور حج ہاؤس سے روزانہ ایک حج پرواز روانہ کی جا رہی ہے۔ لیکن وہیں یہاں ٹھہرائے گئے عازمین حج اور ان کے رشتے داروں کو کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور حج ہاؤس میں آئے دن کچھ نہ کچھ پریشانیوں کو لے کر ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیے جا رہے ہیں۔
وہیں کل رات حج ہاؤس کی لفٹ میں بڑا حادثہ ہوتے ہوتے بچا، کیونکہ حج ہاؤس کی لفٹ میں اچانک دوسری منزل پر لفٹ بند ہو جانے کے سبب 11 لوگ 25 منٹ تک لفٹ میں پھنسے رہے۔ اطلاع ملنے پر لفٹ کے دروازہ کو لوہے کی راڈ سے توڑ کر لوگوں کو باہر نکالا گیا، جس سے بڑا حادثہ ٹل گیا۔ لفٹ میں 11 لوگ کے قریب پھنسے تھے جس میں 7 خواتین 3 مرد اور 1 بچہ شامل ہے۔ اس معاملے کے چلتے لگ بھگ 1 گھنٹے تک حج ہاؤس میں افراتفری مچی رہی۔ جس پر لوگوں نے حج کمیٹی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا اور بدانتظامی کا الزام لگایا۔
یہ بھی پڑھیں:
لفٹ میں پھنسی عذرا علی نے بتایا کہ ضلع ریوا سے ان کے رشتہ دار حج ہاؤس آئے ہوئے تھے اور وہ ان سے ملنے گئی تھی۔ اور جب وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ لفٹ سے اوپر جا رہے تھے تو دو اور تین فلور کے بیچ میں لفٹ پھنس گئی۔ وہیں لفٹ میں ایک صحافی بھی موجود تھے جنہوں نے جلدی سے حج کمیٹی کے ذمہ داران کو فون کیا جس کے بعد حج کمیٹی کے کارکنان نے مل کر لفٹ کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی اور بڑی مشقت کے بعد سبھی لوگوں کو باہر نکالا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ لفٹ میں سب ہی خواتین ڈر گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عذرا علی کا بلڈ پریشر بھی ہائی ہو گیا۔
وہی جب ہم نے حج کمیٹی کی ذمہ دار مسعود خان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پورے حج ہاؤس میں چار لفٹ موجود ہیں۔ لیکن ان چاروں لفٹوں میں سے صرف ایک ہی لفٹ چل رہی ہے اور باقی کی تین لفٹوں کو چلانے کی پرمیشن ہمیں نہیں ملی ہے۔ جو جلد ہی مل جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ لفٹ میں جو لوگ پھنسے تھے انہیں حج کمیٹی کے کارکنان نے بڑی مشقت کے ساتھ اور خیریت کے ساتھ باہر نکالا ہے۔ واضح رہے کہ دارالحکومت بھوپال کی فعال تنظیموں نے حج کمیٹی پر لاپرواہی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب حادثہ ہوا تب نہ تو وہاں کوئی لفٹ چلانے والا موجود تھا اور نہ ہی کوئی ٹیکنیشین۔ اگر ایسے میں لفٹ میں کسی کا جانی نقصان ہوتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا۔