بھوپال : ریاست مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی محکمہ ثقافت اردو زبان کی ہر صنف پر کام کر رہی ہے۔ اردو زبان کے فروغ اور بقا کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے اردو اکاڈمی نے ختم ہوتی صنف چار بیت کو بچانے کے لیے ورکشاپ شروع کی ہے۔ تاکہ اس صنف کو بچایا جا سکے اور اس سے روزگار کے وسائل فراہم ہو۔
وہیں ہم اگر چار بیت کی بات کرے تو یہ صنف 400 سال پرانا روایتی فن ہیں جسے فنکاروں یا گلوکاروں کے ذریعے گروپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ چار بیت یا فور اسٹنجا کو لوک گیت بھی کہا جاتا ہے۔ چار بیت کے روایتی فن کے فنکار مختار احمد نے چار بیت کے تعلق سے بتایا کہ 400 سال پرانا یہ فن افغانستان سے ہوتا ہوا افغانی پٹھانوں کے ساتھ ہندوستان آیا۔انہوں نے یو پی کے رامپور میں اپنا قیام کیا ۔یہ فن راجہ، مہاراجہ، بادشاہ، نواب اس فن کا مزہ تب لیتے تھے جب یہ جنگ جیت کر لوٹتے تھے یا خوشی کے موقع پر لطف اندوز ہوتے تھے۔ کیونکہ اس وقت تفریح کا کوئی وسیلہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس لیے اپنے جشن کا لطف یہ چار بیت اور دف بجا کر کیا کرتے تھے۔
انہوںنے کہاکہ اس فن میں کوئی ساز نہیں بجایا جاتا ہے، اس میں صرف ایک دف استعمال کیا جاتا ہے۔ چار بیت میں دف کی تھاپ پر ایک مخصوص ساز میں کئی راگوں کے اشعار گائے جاتے ہیں۔ اس میں حمد، نعت، عشق و محبت، روحانی، صوفی اور مزاحیہ اشعار گائے جاتے ہیں۔ ماضی میں اس کے مضامین جنگ، جرات، روحانیت اور مزاح تھے۔ اس کے بعد سماجی اور سیاسی حالات بھی اس کے مضامین میں شامل ہو گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں چار بیت کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔ یہ فن رامپور سے مراد آباد ،چاند پور، امروہا اور اس کے بعد مدھیہ پردیش آیا۔ جسے یہاں کے نوابوں نے بہت پسند کیا۔ چار بیت کے فنکار مختار احمد کا کہنا ہے کہ ہمیں بہت خوشی اور مسرت ہے کہ اس چار بیت کے فن کو بچانے کے لیے مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی بہت کوشش کر رہا ہے جس کی ہم ستائش کرتے ہیں۔
چار بیت کے فنکار اور استاد مختار احمد بتاتے ہیں کہ آج کے دور کمرشیل کا دور ہے۔ اور خود ہمارے گھر کے بچے بھی اسے سیکھنا نہیں چاہتے جبکہ یہ ہمارے بزرگوں کا روایتی فن ہے۔ لیکن افسوس کی ہماری نئی نسل اس میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:Char Bait Workshop مدھیہ پردیش اردو اکیڈی کی جانب سے چار بیت ورکشاپ کا اہتمام
انہوں نے کہا آج کا دور میں لوگ فلمی گانوں اور ڈی جے سے متاثر ہے۔ اور انہیں وہی اچھا لگتا ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہاں یہ ہے کہ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی اس فن کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ساتھ میں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ یہ روایتی فن جو صرف مردوں کے ذریعے پیش کیا جاتا تھا آج بھوپال کی خواتین حصہ لے رہی ہیں