’لو جہاد‘ سے متعلق 'مدھیہ پردیش مذہبی آزادی آرڈیننس-2020' کو چیلنج کرنے والی عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔ عرضی میں ریاستی حکومت کے آڑڈیننس کو چیلنج کرتے ہوئے اسے آئین کی دفعہ 14، 19، 21 اور 25 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
یہ عرضی ایڈووکیٹ راجیش ایماندار، شاشوت آنند، دیویش سکسینا، آشوتوش منی تریپاٹھی اور انکُر آزاد کی جانب سے تیار کی گئی ہے اور ایڈووکیٹ ریکارڈ (اے او آر) الدانیش رین کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے 'متنازعہ آرڈیننس شادی کی آزادی، اپنی مرضی کے مذہب کو اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی آزادی سلب کرتا ہے۔ اس قانون نے عام آدمی کی خود مختاری، قانون کی نظر میں مساوات، شخصی آزادی، پسند اور اظہار خیال کی آزادی پر حملہ کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھارت کے آئین کی دفعہ 14، 19 اور 25 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی واضح اور اعلانیہ خلاف ورزی ہے'۔
عرضی گذار کا کہنا ہے 'اسمبلی کے قانون سازی کے عمل سے قطع نظر آرڈیننس نافذ کرنے کا مدعا علیہان کا قدم نہ صرف مطلق العنانی اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین کے ساتھ دھوکہ بھی ہے'۔
یہ بھی پڑھیے
سیدھی حادثہ: ریاستی حکومت کا 5-5 لاکھ معاوضہ دینے کا اعلان
عرضی میں آرڈیننس میں جبراً تبدیلیٔ مذہب کے واقعات کے بارے میں سرکاری ایجنسیوں یا محکموں کے پاس موجود مناسب ڈیٹا کے نہ ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
غور طلب ہے کہ اترپردیش کے آرڈیننس اور اتراکھنڈ کے مذہبی آزادی ایکٹ، 2018 کو چیلنج کرنے والی عرضیاں پہلے سے ہی عدالت عظمیٰ میں زیر التواء ہیں۔