مدھیہ پردیش سے آئے دن عجیب و غریب طرح کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں اور یہ خبر جو آپ پڑھنے جارہے ہیں، یہ بھی آپ کو حیران کر دے گی۔
دراصل مدھیہ پردیش حکومت نے بلدیہ ملازم سنجے جاٹ کی موت کے 16 دن بعد اس کا تبادلہ راج گڑھ میونسپل کونسل میں کردیا۔ سنجے جاٹ پر 3000 ہزار رشوت لینے کا الزام تھا اور اس کے خلاف لوک آیکت نے معاملہ بھی درج کیا تھا۔ اس کے بعد اسے کچھ لوگ بلیک میل کر رہے تھے اور اس سے پریشان ہوکر اس نے خودکشی کرلی تھی۔ اب اس کی موت کے 16 دن بعد یعنی 31 اگست کو اس کا تبادلہ کردیا گیا۔
بیورا میونسپلٹی کے ملازم سنجے کو 26 مارچ کو لوک آیکت پولیس نے 3000 روپے کی رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حالانکہ سنجے جاٹ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے تھے، لیکن پھر بھی ان پر کارروائی کی گئی تھی۔
اس معاملے کے بعد سے سنجے کو گریراج کسیرا، رجت کسیرا اور صحافی اشتیاق نبی پر بلیک میل کر کے پریشان کرنے کا الزام بھی لگا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ سنجے نے پریشان ہوکر 14 اگست کو پھانسی لگالی تھی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سنجے جاٹ کی موت ہونے کے باوجود محکمہ ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے نائب سیکریٹری ترون راٹھی نے سنجے کے ٹرانسفر کے احکامات جاری کیے ہیں، جس نے انتظامیہ پر کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔
سنجے کی موت کے بعد سے اب تک جاٹ سماج کے ساتھ ورکرز یونین تین بار میمورنڈم پیش کرچکے ہیں، جس میں صوبائی سطح تک کے ملازمین نے بھی حصہ لیا تھا۔لیکن ان سب کے باوجود محکمہ ہاؤسنگ اور شہری ترقی کی جانب سے ٹرانسٖفر کا آڈر جاری کیا گیا۔
سنجے جٹ کی موت کے بعد سے ملزم گریراج کسیرا اور رجت کسیرا جیل میں بند ہیں جبکہ پولیس دیگر دو ملزمین صحافی اشتیاق نبی اور شکایت کنندہ بھگیراتھ جاٹو کی تلاش کر رہی ہے۔ساتھ ہی ، ٹرانسفر آرڈر میں لکھا ہے کہ لوک آیکت بھوپال کی طرف سے سنجے جاٹ کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں ایک کیس درج کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی حکومت نے سنجے جاٹ کو بلدیہ راج گڑھ میں ایک خالی پوسٹ پر تعینات کیا ہے۔لیکن اہم سوال اٹھتا ہے کہ کیا ملازم کی موت کی خبر 16 دنوں میں ڈپٹی سیکرٹری تک نہیں پہنچی ، جبکہ اس موت کے حوالے سے اتنا ہنگامہ ہوچکا ہے۔