ETV Bharat / state

MP Hijab Poster Controversy ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا، جانچ میں خلاصہ

author img

By

Published : Jun 3, 2023, 10:39 AM IST

ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ میں گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول میں حجاب پر ہوئے تنازعہ کی جانچ کی گئی۔ طالبات اور ان کے والدین سے بھی پوچھ گچھ کی گئی لیکن کہیں اسکول پر حجاب پہننے کا دباؤ بنانے کی بات سامنے نہیں آئی ہے۔

ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا
ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا
ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا

بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ کے گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول کی انتظامیہ پر ہندو طالبہ کو حجاب پہنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ طالبات کے امتحانی نتائج کے پوسٹر میں ہندو طالبات بھی حجاب پہنے نظر آرہی ہیں۔ حالاں کہ وہ حجاب نہیں اسکارف ہے۔ معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر داخلہ نروتم مشرا نے بدھ کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ اور اسی دن ہندو تنظیموں نے کلکٹر کو ایک میمورنڈم دے کر کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق طالبات کے امتحانی نتائج کے پوسٹر میں اسکول میں زیر تعلیم طالبات نے اپنے سروں پر ایک کپڑا باندھا ہوا ہے جو حجاب کی طرح نظر آتا ہے۔ سارا تنازع اسی کپڑے سے شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی اس اسکول پر مذہب کی تبدیلی کا الزام لگایا جا چکا ہے۔ جب یہ خبر پھیلی تو قومی انسانی حقوق کمیشن کی صدر پرینکا قانون گو نے ٹویٹ کیا۔ دموہ کے کلکٹر مینک اگروال نے بھی اس معاملے کی جانچ کرائی تھی اور پھر تحقیقات میں تبدیلی مذہب کا معاملہ افواہ ثابت ہوا تھا۔

دموہ کلکٹر مینک اگروال نے بتایا کہ کے کیس کی اطلاع ملنے کے بعد ہم نے کوتوالی ٹی آئی اور کچھ افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس پورے معاملے کی چھان بین کی گئی،وہی والدین سے بات کی گئی اور اسکول انتظامیہ سے بھی بات ہوئی ہے۔ تبدیلی مذہب کا معاملہ کہیں بھی سامنے نہیں آیا۔ تحقیقاتی ٹیم میں شامل دموہ کوتوالی ٹی آئی وجے سنگھ راجپوت کا کہنا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے واضح کیا کہ اسکارف کو حجاب سمجھا جا رہا ہے۔ یہ اسکول یونیفارم کا ایک حصہ ہے۔ اسکول کے تمام بچے اسے پہن سکتے ہیں، لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ اسکول کے ڈائریکٹر مشتاق خان نے بتایا کہ اسکول میں یونیفارم میں اسکارف بھی شامل ہے۔ کسی کو بھی اسے پہننے کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا ہے۔ وہی اس جانچ کے بعد وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان نے بھی ایک بار پھر جانچ کے احکامات جاری کیے ہیں۔ جس پر ضلع کلکٹر مینک گروال نے کہا کہ اس سے قبل جانچ کروائی تھی۔ اور اب وزیر اعلی کے حکم پر دوبارہ جانچ کروائی جا رہی ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں ضلع تحصیلدار، ضلعی تعلیمی افسران اور پولیس افسران شامل ہوگے۔ ان سب کی تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ وزیرداخلہ کو بھیجی جائے گی۔ گنگا جمنا اسکول کو لے کر یہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد بدھ کی دوپہر ہندو تنظیم کے کارکنان کلکٹریٹ پہنچے تھے اور ڈپٹی کلکٹر کو میمورنڈم دیا تھا۔ انہوں نے ایجو کیشن آفیسر کی جانب سے کی گئی تحقیقات کو غلط قرار دیتے ہوئے تفتیشی افسران پر بھی الزام عائد کیا ہے۔ لوگوں نے اسکول کی مسلمہ حیثیت منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر پر بھی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ میمورنڈم دے رہے لوگوں نے کہا کہ ہندو مذہب کی بیٹیوں کو جان بوجھ کر حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیے

یہ بھی پڑھیں : MP Hijab Poster Controversy اپنی مرضی سے اسکارف پہن کر اسکول جاتی ہے، حجاب تنازع پر ہندو طالبہ کی ماں کا بیان

ہندو بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا

بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ کے گنگا جمنا ہائر سیکنڈری اسکول کی انتظامیہ پر ہندو طالبہ کو حجاب پہنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ طالبات کے امتحانی نتائج کے پوسٹر میں ہندو طالبات بھی حجاب پہنے نظر آرہی ہیں۔ حالاں کہ وہ حجاب نہیں اسکارف ہے۔ معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ وزیر داخلہ نروتم مشرا نے بدھ کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ اور اسی دن ہندو تنظیموں نے کلکٹر کو ایک میمورنڈم دے کر کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق طالبات کے امتحانی نتائج کے پوسٹر میں اسکول میں زیر تعلیم طالبات نے اپنے سروں پر ایک کپڑا باندھا ہوا ہے جو حجاب کی طرح نظر آتا ہے۔ سارا تنازع اسی کپڑے سے شروع ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی اس اسکول پر مذہب کی تبدیلی کا الزام لگایا جا چکا ہے۔ جب یہ خبر پھیلی تو قومی انسانی حقوق کمیشن کی صدر پرینکا قانون گو نے ٹویٹ کیا۔ دموہ کے کلکٹر مینک اگروال نے بھی اس معاملے کی جانچ کرائی تھی اور پھر تحقیقات میں تبدیلی مذہب کا معاملہ افواہ ثابت ہوا تھا۔

دموہ کلکٹر مینک اگروال نے بتایا کہ کے کیس کی اطلاع ملنے کے بعد ہم نے کوتوالی ٹی آئی اور کچھ افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس پورے معاملے کی چھان بین کی گئی،وہی والدین سے بات کی گئی اور اسکول انتظامیہ سے بھی بات ہوئی ہے۔ تبدیلی مذہب کا معاملہ کہیں بھی سامنے نہیں آیا۔ تحقیقاتی ٹیم میں شامل دموہ کوتوالی ٹی آئی وجے سنگھ راجپوت کا کہنا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے واضح کیا کہ اسکارف کو حجاب سمجھا جا رہا ہے۔ یہ اسکول یونیفارم کا ایک حصہ ہے۔ اسکول کے تمام بچے اسے پہن سکتے ہیں، لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ اسکول کے ڈائریکٹر مشتاق خان نے بتایا کہ اسکول میں یونیفارم میں اسکارف بھی شامل ہے۔ کسی کو بھی اسے پہننے کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا ہے۔ وہی اس جانچ کے بعد وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان نے بھی ایک بار پھر جانچ کے احکامات جاری کیے ہیں۔ جس پر ضلع کلکٹر مینک گروال نے کہا کہ اس سے قبل جانچ کروائی تھی۔ اور اب وزیر اعلی کے حکم پر دوبارہ جانچ کروائی جا رہی ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم میں ضلع تحصیلدار، ضلعی تعلیمی افسران اور پولیس افسران شامل ہوگے۔ ان سب کی تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ وزیرداخلہ کو بھیجی جائے گی۔ گنگا جمنا اسکول کو لے کر یہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد بدھ کی دوپہر ہندو تنظیم کے کارکنان کلکٹریٹ پہنچے تھے اور ڈپٹی کلکٹر کو میمورنڈم دیا تھا۔ انہوں نے ایجو کیشن آفیسر کی جانب سے کی گئی تحقیقات کو غلط قرار دیتے ہوئے تفتیشی افسران پر بھی الزام عائد کیا ہے۔ لوگوں نے اسکول کی مسلمہ حیثیت منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر پر بھی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ میمورنڈم دے رہے لوگوں نے کہا کہ ہندو مذہب کی بیٹیوں کو جان بوجھ کر حجاب پہننے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیے

یہ بھی پڑھیں : MP Hijab Poster Controversy اپنی مرضی سے اسکارف پہن کر اسکول جاتی ہے، حجاب تنازع پر ہندو طالبہ کی ماں کا بیان

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.