ETV Bharat / state

Ek Shayar Program ایک شاعر پروگرام میں ڈاکٹر علی عباس امید سے گفتگو

ایک شاعر پروگرام کے تحت ریاست مدھیہ پردیش کے ممتاز شاعر علی عباس امید سے ان کی ادبی زندگی پر ای ٹی وی بھارت کی جانب سے خصوصی گفتگو کی گئی۔ Interview with Dr Ali Abbas Omeed

Interview with Dr Ali Abbas Omeed in a poet program
Interview with Dr Ali Abbas Omeed in a poet program
author img

By

Published : Jul 11, 2023, 4:30 PM IST

ممتاز شاعر ڈاکٹر علی عباس امید اور نمائندہ ای ٹی وی بھارت کے درمیان خصوصی گفتگو

بھوپال: نام علی عباس اور تخلص امید ہے۔ علی عباس امید بھوپال میں ایک ایسا نام ہے جس نے ادب کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کر کے اہل قلم کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ بیک وقت شاعر، ڈرامہ نگار، ناقد اور محقق بھی ہیں۔ علی عباس امید کی ادبی فتوحات کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے اردو میں شاعری، افسانہ، ڈرامہ، طنز و مزاح پر کام تو کیا ہی ہے، انہوں نے ہندی اور انگریزی زبان میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ علی عباس امید کی تصانیف میں "نگار غالب، لہو لہو، آفاقی المیہ، پتھروں کا شہر، لب گویا، پروانے کی خاک، قلم کا درد، مہتی دیوتا اور ننھی منی کہانیوں" کے نام قابل ذکر ہیں۔

انگریزی زبان میں ان کی شاعری کی کتاب "اسپرے" نام سے امریکہ سے شائع ہوئی ہے۔ بھوپال میں فن شاعری میں مہارت رکھنے والے تو بہت ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جس کو بیک وقت اردو ہندی اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو۔ مگر ڈاکٹر علی عباس امید کو اللہ نے یہ وصف عطا کیا ہے کہ وہ اردو، ہندی کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی اپنی قلم کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ان کی تخلیقات کو ریکگنائز بھی کیا جا رہا ہے۔ ہمارے یہاں ادب کے نام پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، لوگوں نے ادب کے نام پر نہ جانے کیا کیا لکھ دیا ہے لیکن بیسیوں کتابیں لکھنے کے بعد بھی نہ تو ان کا فن، اسلوب، رنگ و آہنگ قائم ہو پاتا ہے۔ اور نہ ہی ادبی حلقوں میں ان کی شناخت قائم ہو پاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

لیکن علی عباس امید کے ادبی شہ پاروں کا نہ صرف نوٹس لیا جا رہا ہے بلکہ انہوں نے ادبی شناخت بھوپال آنے سے قبل ہی قائم کر لی تھی۔ ڈاکٹر علی عباس امید نے اپنے تعلق سے مزید بتایا کہ میں مدھیہ پردیش کے ضلع جبل پور میں پیدا ہوا جو کہ میرا ننھیال ہے۔ اور ہمارا آبائی وطن اعظم گڑھ ہے۔ اور میرا وطن ثانی اب بھوپال اس لیے ہے کیونکہ میری پوری ملازمت اسی شہر میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد خود استاد تھے اور میری ابتدائی تعلیم غازی پور میں مکمل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میری والدہ کا اصرار تھا کہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کروں، اس لیے میری اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مکمل ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں 1965 میں دارالحکومت بھوپال میں ملازمت کے سلسلے میں آیا اور اس شہر میں، میں نے نصف درجن ملازمت کی۔ وہیں علی عباس امید نے اپنے ادبی سفر کے تعلق سے بتایا کہ ہمارے گھر کا ماحول اس طرح تھا کہ ساری ساری رات بیت بازی میں گزر جاتی۔ اس لیے ادب کے لحاظ سے مجھے استاد کی ضرورت نہیں پڑی اور میں خود اپنا استاد رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مطالعہ سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ اور جو مطالعہ نہیں کرتا وہ استاد رہتے ہوئے بھی محروم رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے نانا حضور مجلس کیا کرتے تھے اور انہوں نے ایک روز انیس کا شعر مجھے یاد کروا کر مجلس میں پڑھوایا تھا اور وہی میرا پہلا اسٹیج ثابت ہوا۔

اور اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ خود اپنا کلام لکھیں گے اور پڑھیں گے اور وہیں سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ اور جب میں دسویں کلاس میں پہنچا تو میری پہلی نظم نیا دور میں شائع ہوئی اور اس زمانے میں اس کا 15 روپے معاوضہ بھی ملا۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور ادب کی کوئی ایسی صنف نہیں بچی جس میں، میں نے کچھ تخلیق نہ کیا ہو۔ علی عباس امید بتاتے ہیں کہ میرے ادب کے اس سلسلے میں مجھے دنیا کے لگ بھگ سبھی ملکوں میں مدعو کیا گیا۔ اور سبھی جگہوں سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر علی عباس امید کے ذریعے قلم کار پریشد ایک تنظیم بھی چلائی جاتی ہے۔

جو اردو زبان، اردو اساتذہ اور اردو سے جڑی سبھی پریشانیوں کو لے کر آئے دن حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھتی چلی آرہی ہے۔ وہیں علی عباس امید بتاتے ہیں کہ آج اردو زبان کو نئی نسل کی زندگی میں شامل کرنے کے لیے ہمیں صرف اردو میں شعر و شاعری ہی نہیں بلکہ اس میں کئی اصناف سخن ہیں۔ اور ان اصناف سخن پر آج کم توجہ دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعر و شاعری تو ہوتی ہی رہے گی لیکن اردو میں تنقید، تحقیق، ڈرامہ، مرثیہ، نوحہ، رباعی اور قطعہ بھی ہیں۔ ان سب پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے اہم چیز ہے ہمارا رسم الخط۔ کیونکہ آج ہم ہمارے رسم الخط سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ہماری نئی نسل اور ہمیں خود ہمارے رسم الخط پر دھیان دینا چاہیے۔



*علی عباس امید کا کلام*

طویل سوچ ہے اور مختصر لہو میرا۔
گراں سفر میں ہے زاد سفر لہو میرا۔

وہ رونقیں بھی گئی اس کے خشک ہوتے ہی۔
سجاتا رہتا تھا دیوار ادھر لہو میرا۔

ہر ایک لمحہ مجھے زندگی نے قتل کیا۔
تمام عمر رہا میرے سر لہو میرا۔

دیار غیر کو مہکا گیا حنا بن کر۔
یہ واقعہ ہے رہا ہے ہنر لہو میرا۔

وہ روح تھی جسے عہد وفا کا پاس نہ تھا۔
کبھی نہ چھوڑ سکا اپنا گھر لہو میرا۔

ڈاکٹر علی عباس امید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یہ خوبی ہے کہ یہاں طلباء کو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دی جاتی ہے۔ علی عباس امید اسی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں وہ کسی سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں۔ ان کی تنظیم "قلم کار پریشد" گزشتہ چار دہائیوں سے بھوپال میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔

ممتاز شاعر ڈاکٹر علی عباس امید اور نمائندہ ای ٹی وی بھارت کے درمیان خصوصی گفتگو

بھوپال: نام علی عباس اور تخلص امید ہے۔ علی عباس امید بھوپال میں ایک ایسا نام ہے جس نے ادب کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کر کے اہل قلم کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ بیک وقت شاعر، ڈرامہ نگار، ناقد اور محقق بھی ہیں۔ علی عباس امید کی ادبی فتوحات کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے اردو میں شاعری، افسانہ، ڈرامہ، طنز و مزاح پر کام تو کیا ہی ہے، انہوں نے ہندی اور انگریزی زبان میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ علی عباس امید کی تصانیف میں "نگار غالب، لہو لہو، آفاقی المیہ، پتھروں کا شہر، لب گویا، پروانے کی خاک، قلم کا درد، مہتی دیوتا اور ننھی منی کہانیوں" کے نام قابل ذکر ہیں۔

انگریزی زبان میں ان کی شاعری کی کتاب "اسپرے" نام سے امریکہ سے شائع ہوئی ہے۔ بھوپال میں فن شاعری میں مہارت رکھنے والے تو بہت ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جس کو بیک وقت اردو ہندی اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو۔ مگر ڈاکٹر علی عباس امید کو اللہ نے یہ وصف عطا کیا ہے کہ وہ اردو، ہندی کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی اپنی قلم کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ان کی تخلیقات کو ریکگنائز بھی کیا جا رہا ہے۔ ہمارے یہاں ادب کے نام پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، لوگوں نے ادب کے نام پر نہ جانے کیا کیا لکھ دیا ہے لیکن بیسیوں کتابیں لکھنے کے بعد بھی نہ تو ان کا فن، اسلوب، رنگ و آہنگ قائم ہو پاتا ہے۔ اور نہ ہی ادبی حلقوں میں ان کی شناخت قائم ہو پاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

لیکن علی عباس امید کے ادبی شہ پاروں کا نہ صرف نوٹس لیا جا رہا ہے بلکہ انہوں نے ادبی شناخت بھوپال آنے سے قبل ہی قائم کر لی تھی۔ ڈاکٹر علی عباس امید نے اپنے تعلق سے مزید بتایا کہ میں مدھیہ پردیش کے ضلع جبل پور میں پیدا ہوا جو کہ میرا ننھیال ہے۔ اور ہمارا آبائی وطن اعظم گڑھ ہے۔ اور میرا وطن ثانی اب بھوپال اس لیے ہے کیونکہ میری پوری ملازمت اسی شہر میں رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد خود استاد تھے اور میری ابتدائی تعلیم غازی پور میں مکمل ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میری والدہ کا اصرار تھا کہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کروں، اس لیے میری اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مکمل ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں 1965 میں دارالحکومت بھوپال میں ملازمت کے سلسلے میں آیا اور اس شہر میں، میں نے نصف درجن ملازمت کی۔ وہیں علی عباس امید نے اپنے ادبی سفر کے تعلق سے بتایا کہ ہمارے گھر کا ماحول اس طرح تھا کہ ساری ساری رات بیت بازی میں گزر جاتی۔ اس لیے ادب کے لحاظ سے مجھے استاد کی ضرورت نہیں پڑی اور میں خود اپنا استاد رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مطالعہ سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ اور جو مطالعہ نہیں کرتا وہ استاد رہتے ہوئے بھی محروم رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے نانا حضور مجلس کیا کرتے تھے اور انہوں نے ایک روز انیس کا شعر مجھے یاد کروا کر مجلس میں پڑھوایا تھا اور وہی میرا پہلا اسٹیج ثابت ہوا۔

اور اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ خود اپنا کلام لکھیں گے اور پڑھیں گے اور وہیں سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ اور جب میں دسویں کلاس میں پہنچا تو میری پہلی نظم نیا دور میں شائع ہوئی اور اس زمانے میں اس کا 15 روپے معاوضہ بھی ملا۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور ادب کی کوئی ایسی صنف نہیں بچی جس میں، میں نے کچھ تخلیق نہ کیا ہو۔ علی عباس امید بتاتے ہیں کہ میرے ادب کے اس سلسلے میں مجھے دنیا کے لگ بھگ سبھی ملکوں میں مدعو کیا گیا۔ اور سبھی جگہوں سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر علی عباس امید کے ذریعے قلم کار پریشد ایک تنظیم بھی چلائی جاتی ہے۔

جو اردو زبان، اردو اساتذہ اور اردو سے جڑی سبھی پریشانیوں کو لے کر آئے دن حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھتی چلی آرہی ہے۔ وہیں علی عباس امید بتاتے ہیں کہ آج اردو زبان کو نئی نسل کی زندگی میں شامل کرنے کے لیے ہمیں صرف اردو میں شعر و شاعری ہی نہیں بلکہ اس میں کئی اصناف سخن ہیں۔ اور ان اصناف سخن پر آج کم توجہ دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعر و شاعری تو ہوتی ہی رہے گی لیکن اردو میں تنقید، تحقیق، ڈرامہ، مرثیہ، نوحہ، رباعی اور قطعہ بھی ہیں۔ ان سب پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے اہم چیز ہے ہمارا رسم الخط۔ کیونکہ آج ہم ہمارے رسم الخط سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ہماری نئی نسل اور ہمیں خود ہمارے رسم الخط پر دھیان دینا چاہیے۔



*علی عباس امید کا کلام*

طویل سوچ ہے اور مختصر لہو میرا۔
گراں سفر میں ہے زاد سفر لہو میرا۔

وہ رونقیں بھی گئی اس کے خشک ہوتے ہی۔
سجاتا رہتا تھا دیوار ادھر لہو میرا۔

ہر ایک لمحہ مجھے زندگی نے قتل کیا۔
تمام عمر رہا میرے سر لہو میرا۔

دیار غیر کو مہکا گیا حنا بن کر۔
یہ واقعہ ہے رہا ہے ہنر لہو میرا۔

وہ روح تھی جسے عہد وفا کا پاس نہ تھا۔
کبھی نہ چھوڑ سکا اپنا گھر لہو میرا۔

ڈاکٹر علی عباس امید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یہ خوبی ہے کہ یہاں طلباء کو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی دی جاتی ہے۔ علی عباس امید اسی تہذیب کے پروردہ ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں وہ کسی سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں۔ ان کی تنظیم "قلم کار پریشد" گزشتہ چار دہائیوں سے بھوپال میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.