ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ودیشہ کا سیرونج شہر ادبی اعتبار سے ایسا زرخیز علاقہ ہے، جہاں بڑے بڑے شعراء و ادباء گزرے ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے ملک میں شہرت حاصل کی۔
یہی وجہ ہے کہ سیرونج میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم طبقہ بھی اردو زبان سے محبت رکھتا ہے۔ سیرونج کے اگروال خاندان کی یہ لڑکی استوتی اگروال اردو زبان سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ اس نے اس کے لیے اپنے اہل خانہ سے بغاوت کرتے ہوئے نہ صرف اردو سیکھی بلکہ آج بھارت کے ہر رسالے میں ان کے نظمیں، افسانے اور مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
استوتی اگروال اس وقت سیرونج سے شائع ہونے والے رسالہ انتساب کی نائب ایڈیٹر ہیں، وہیں وہ اس رسالے کو کمپوز بھی کرتی ہیں۔
استوتی اگروال نے بتایا کہ، 'اردو کی تعلیم حاصل کرنے پر میرے گھر میں لوگوں نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ آپ مسلمان بن جائیں گی اگر اردو پڑھیں گی۔'
استوتی اگروال نے ای ٹی وی بھارت اردو سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد انیل اگروال کی دوستی ادب سے جڑے لوگوں سے پرانے وقت سے چلی آرہی ہے اور خود بھی اپنے والد کے ساتھ ادبی محفلوں کا حصہ بنتی رہیں، جس سے اردو زبان سے محبت بڑھتی گئی۔
استوتی اگروال کو پانچ سے آٹھ سال کی عمر میں سبھی بڑے شعراء کا کلام ازبر ہوا تھا اور جب وہ یہ کلام مشاعروں میں سناتی تھیں تو خوب داد و تحسین ملتی اور پھر یہیں سے شروع ہوا ان کا اردو سے محبت کا سلسلہ۔
آٹھویں کلاس سےاستوتی اگروال نے اردو اسکول میں داخلہ لے لیا اور اپنی 6 مہینوں کی محنت سے ہی اردو سیکھ لی اور اسی درمیان کئی رسالوں میں ان کے کئی مضامین، افسانے اور نظمیں شائع بھی ہو چکی تھیں۔
وہی مذہب اور زبان کے نام پر نا اتفاقی پیدا کرنے والوں پر استوتی اگروال علامہ اقبال کے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا۔
استوتی اگروال نے کہا جب ہم ایک جیسے دیکھنے والے ہیں ہم وطن ہیں اور ہماری ثقافت بھی ایک ہے تو لڑائی کس بات کی۔
ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھنے اور اردو سے محبت کے سوال پر استوتی نے بتایا کہ، 'میرے گھر میں ہی اعتراض کرنے والے لوگ تھے، میرے والد اور والدہ ہی وہ افراد تھے جنہوں نے میری تائید کی۔ اس کے علاوہ میرے گھر میں کوئی ایسا نہیں تھا جنہوں نے میری تائید کی ہو بلکہ دعویٰ کیا کہ آپ مسلمان بن جائیں گی اگر آپ اردو پڑھیں گی۔'
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اس موضوع پر میں ایک نظم کہی جس کا عنوان ہے 'میں ارود کس لیے پڑھتی ہوں'۔
میں ارود کس لیے پڑھتی ہوں
اکثر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا ہے
کبھی گھر والے کبھی سہیلیاں
اور کبھی کبھی اسکول کے ٹیچر
نہ صرف یہ سوال کرتے ہیں بلکہ اعتراض بھی کرتے ہیں
کہ تمہارا اردو سے کیا کام
کوئی بتائے کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟
کہ بغیر اردو میرا وجود کیا ہوگا۔
مزید پڑھیں:
بھوپال: ثقافتی فن 'چہار بیت' کا خصوصی اہتمام
استوتی نے بتایا کہ ان سب حالات کے باوجود میں ڈگمگائی نہیں اور اردو پڑھ لکھ کر آج میں اچھے مقام پر پہنچ چکی ہوں۔