مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں ہولی کے موقع پر اردو کے کلام جو کی ہولی کے موقع پر لکھے گئے انہیں ایم ایل بی کالج کی طالبات نے خود کمپوز کیا اور بہترین انداز میں پیش کیا۔ بھارت میں ہولی کا تہوار ہر سال بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس تہوار میں دلوں کے میل دھل جاتے ہیں۔ 21ویں صدی کو جسے سائنس کا دور کہا جا رہا ہے اور ٹیکنالوجی نے ساری دنیا کو ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے، ایسے میں تہذیب یا سنسکرتی، وراثت جو آج کے وقت میں ختم ہوتی جارہی ہیں، انسانوں کو وحشت کا احساس کر آ رہی ہے۔ ایسے میں ہولی کا تہوار اور اس میں بکھرے رنگ ایک دوسرے کو جوڑنے اور دلوں کو ملانے کا کام کرتا ہے۔ وہیں ہولی کے موقع پر اردو کے شاعر روشن شمس آبادی نے ہولی پر بہت شاندار کلام لکھا ہے۔ جسے ایم ایل بی کے طالبات نے خود کلام کو کمپوز کرکے بہترین انداز میں قوالی پیش کیا۔ قوالی میں گائے ہوئے اشعار کچھ طرح ہیں:۔
اس کے نقش و نگار ہولی میں
کھیچ لائی بہار ہولی میں
منتظر حسن یار ہولی میں
ہے بہارے بہار ہولی میں
بہارے دیدار یار ہولی میں
آ رہی ہے بہار ہولی میں
ان کے رخ کا نکھار ہولی میں
اور لایا بہار ہولی میں
فیض تیرا اگر نہیں ساقی
ہے فریبے بہار ہولی میں
چشم ساقی سے میں ٹپکتی ہیں
میکشوں یہ بہار ہولی میں
خوب تیری غزل اے روشن
حاصل سدا بہار ہولی میں
کس کے نقش و نگار ہولی میں
کھیچ لائے باہر ہولی میں
واضح رہے کہ یہ طلبات ایم ایل بی کالج محکمہ موسیقی کی طلبات ہیں۔ جو کالج میں تعلیم کے ساتھ موسیقی بھی سیکھ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کی ہولی کے تہوار کے موقع پر ان طلبات نے اپنی موسیقی استاد کے ساتھ مل کر اس بہترین کمپوزیشن کو ہولی کے موقع پر تیار کرکے پیش کیا گیا۔