بھوپال: ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع بیتول کے مشہور و معروف شاعر اظہر بخش سے جب ای ٹی وی بھارت اردو نے ان کی ادبی زندگی اور اردو کی خدمات کو لے کر گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ضلع بیتول میں 20 اپریل 1952 میں پیدا ہوئے اور اعلی تعلیم بی ایس سی ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ساتھ ہی اردو سے محبت کی وجہ سے اردو زبان میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے تعلق سے بتایا کہ انہوں نے شروعاتی دور میں کاشتکاری کی ہے اور ساتھ میں ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد 1988 میں وزارت کھیل محکمہ میں ضلع افسر کے طور پر ذمہ داری کو انجام دینے لگا۔
اردو کی طرف ان کا رجحان کس طرح بڑھا اس پر اظہر بخش بتاتے ہیں کہ میرے دادا مرحوم اطہر بخش کی دوستی اس وقت کے سب سے بڑے شاعر اور گلوکار مرحوم شکیل بدایونی سے تھے۔ اور وہ اکثر ہمارے آبائی وطن ضلع بیتول میں میرے دادا سے ملاقات کرنے آتے تھے۔ کیونکہ شکیل بدایونی بیمار تھے اور انہیں ڈاکٹر نے صلاح دی تھی کہ وہ کوئی ہیل اسٹیشن پر جائے اور اس وقت بیتول کی آب و ہوا بہت خاص ہوا کرتی تھی۔ اس لیے شکیل بدایونی اکثر آتے تھے اور ان کی خدمات کرتے کرتے اردو کے تین شعور پیدا ہوا۔ وہیں ان کے ساتھ بڑے بڑے شور حضرات بھی ان کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب ادبی ہستیوں کے ساتھ رہتے رہتے میرا بھی ادبی شعور پیدا ہو گیا۔
انہوں نے اپنی ادبی سفر کے تعلق سے بتایا کہ میں نے 1970-71 کے دور میں اپنے کالج کے زمانے میں جب مجھے شاعری میں اعزاز سے نوازا گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک اچھا شاعر ہوں۔ اور پھر وہاں سے باقاعدہ میری ادبی اور شاعری کا آغاز ہوا۔ اور پھر میرا شاعری کا یہ شوق پروان چڑھا اور میں نے شہر میں استاد شاعر علیم شوق سے اپنی ادبی سفر کی شروعات کی اور اس کے بعد میرے ذریعے شہر میں کئی مشاعرے منعقد کرنے کا دور شروع ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ جب میری شاعری کی شروعات ہوئی تو میرا پہلا کلام اسے استاد شاعروں نے بہت پسند کیا۔
ایک نیا مرض مسلح ٹی بی ہے
نام کمبخت کا غریب ہے۔
کرنا پائی حکومت بھی اس کا علاج
یہ ہماری ایک بد نصیبی ہے
انہوں نے بتایا کہ انجمن پاسبان ادب تنظیم کے ذریعے منعقد کیا گیا مشاعرے میں میں نے پہلی بار مشاعرے میں شرکت کی اور اس مشاعرے میں ہندوستان کے مشہور و معروف شعراء نے شرکت کی تھی۔ اور اس کے بعد مشاعروں میں جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اظہر بخش نے ان کے ذریعے اب تک مرتب کی گئی کتابوں کے تعلق سے بتایا کہ ان کی 15 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جس میں تین شعری مجموعے ہیں تحفہ، بے خیالی اور دھڑکنوں کے سبب اور ایک کتاب نکھار ہے جو کہ اردو تلفظ پر مبنی ہے۔ اور وہ امریکہ کی 10 یونیورسٹی میں موجود ہے۔ یہ کتاب دیوناگری میں ہے اور ہندی زبان والوں کو اردو تلفظ کس طرح سے بولا جائے یہ اس کتاب میں سکھایا گیا ہے۔ اس کے اب تک پانچ ایڈیشن نکالے جا چکے ہیں اور لوگ اسے بہت پسند کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے کی دوسری کتاب ہے اصلاح غزل اس کے تین ایڈیشن نکل چکے ہیں اور اس کتاب میں اردو غزل کیسے لکھیں یہ تمام باتیں اس میں مرتب کی گئی ہے۔
ایک کتاب تاریخی ورثے پر مرتب کی گئی ہے اس میں 1857 کی کہانیاں اور قصے درج ہے۔ وہیں انہوں نے بتایا کہ اب حال ہی میں دو ناول منظر عام پر آنے والے ہیں جو کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں پر مشتمل ہوگا اور اس کا نام ہے شاطر شکارن، انہوں نے بتایا کہ یہ موضوع ایسا ہے جسے کسی نے بھی ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ اور اس کتاب کا عنوان ہے Female in mail of sexual abuse عورتوں کے ذریعے مردوں پر ظلم و زیادتی یہ اس کا عنوان ہے۔
مزید پڑھیں: اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کلچرل اکادمی کی منفرد پہل
اس سوال پر کہ آج کی نسل اردو زبان سے دوری بنا رہی ہے اور دیگر مشغلوں میں مصروف ہیں اس پر اظہر بخش نے کہا کہ انہوں نے بتایا کہ حالانکہ یہ مشکل کام ہے لیکن میں یہ نہیں مانتا کہ پڑھنے والے کم ہو گئے ہیں۔ کیونکہ میری ایک کتاب کو ایمازون پر تین سال میں 35 بار سب سے زیادہ بکنے کا ٹائٹل حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عنوان ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اپیل کرے اور وہ پڑھنے پر مجبور ہو، تو لوگ برابر اسے پڑھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ شیر مجموعے اور ادبی کتابیں اتنی نہیں خریدی جاتی جتنی کی کسی عنوان یا سبجیکٹ کو لے کر لکھی گئی ہو۔ آج ایسی کتابیں لکھی جانے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے اور سبق ملے۔ انہوں نے بتایا کہ آج کے وقت میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا اردو زبان سے تعلق نہیں ہے لیکن وہ اردو زبان سیکھ رہے ہیں اور غزل اور نظمیں بھی لکھ رہے ہیں۔ اور اپنا شوق میری کتاب نکھار کے ذریعے پورا کر رہے ہیں۔ اظہر بخش نے اپنے ذریعے لکھے گئے ایک کلام کو پیش کیا ۔
اتنے دنوں سے تھی کہاں بولی پتہ نہیں۔
ڈھونڈا کیا سارا جہاں، بولی پتہ نہیں ۔
ماتھے پہ تیرے چاند ہے زلفوں میں رات ہے۔
افشا ہیں تیری کہکشاں بولی پتہ نہیں۔
چوما ہے میں نے خواب میں شب تجھے سر تپا۔
بوسوں کے ہے کہ کچھ نشا بولی پتہ نہیں۔
ہر علم تجھ کو آتا ہے لیکن بتا مجھے۔
اتی ہے کیا دل کی زبان بولی پتہ نہیں۔
مالا وہ تیرے نام کی جپتا ہے رات دن ۔اظہر کی ہے تو جانے جا بولی پتہ نہیں ۔
اسی طرح سے ممتاز شاعر اظہر بخش نے اپنی ادبی زندگی اور شاعری کو لے کر ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کی اور بتایا کہ آج کے وقت میں اردو زبان کو وہی مقام حاصل ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج ضرورت ہے تو ہمیں اردو زبان کو اور عام کرنے کی تاکہ ہماری آنے والی نسل بھی اس زبان میں دلچسپی لے اور ہماری زبان اردو کا وجود قائم رہے۔