بھوپال : ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے مشہور و معروف ادیب شاعر، افسانہ نگار، اور صحافی اقبال مقصود سے جب ہم نے ان کی ادبی زندگی اور اردو کی خدمات کو لے کر ان سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی ادب میں دلچسپی تھی۔ انہوں نے کہا جب سے وہ حرف شناس ہوئے ہیں تبھی سے انہوں نے ادب پڑھنا شروع کیا پہلے انہوں نے بچے بچوں کے ادب کو پڑھنا شروع کیا اور پھر بڑوں کے ادب میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے بہن بھائیوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ گھر میں ہر قسم کا ساز و سامان اور بہت قسم کی کتابیں بھی موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دلچسپی پڑھنے میں زیادہ بڑھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی 13 سال کی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھا جو کہ ایک مشہور رسالے میں شائع ہوا۔
اقبال مسعود نے اپنی تعلیمی سفر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سیفیہ کالج سے اپنی اعلی تعلیم مکمل کی اس کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم فل کی ڈگری حاصل اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے کوششیں شروع کی جس میں ان کا موضوع تھا مارکسیزم کے اثرات اور فرد پر اور سماج پر اور ان کا عکس ہندوستانی ناول میں لیکن افسوس کی اقبال مسعود اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری گھر کے حالات کی وجہ سے مکمل نہیں کر پائے۔ اس سوال پر کہ ان کا رجحان ادب کی جانب کس طرح سے بڑھا اس پر اقبال مسعود نے کہا کہ ان کے ساتھ ایک عجیب صورتحال یہ ہوئی کہ ان کے والد کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ اور گھر میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ وہ یہ بتائے کہ مجھے آگے کس طرح کی تعلیم حاصل کرنا ہے یعنی کسی قسم کا کوئی گاڈ فادر نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جو کچھ کرنا تھا وہ خود کو ہی کرنا تھا۔
انہوں نے اس موضوع پر ایک شعر سنایا ۔۔۔۔۔
میں وہیں خوش ہوں جہاں تو نے اگایا ہے
مجھےاب اسی دشت پہ پیڑ کا سایہ لکھوں۔
انہوں نے کہا یہی وجہ ہے کہ میں خود ہوں جو آپ کے سامنے ہوں۔ انہوں نے کہا عمر کے ساتھ درخت بڑھ گیا ہے اور یہ درخت باہر لا رہا ہے یا نہیں یہ فیصلہ پڑھنے والوں کو کرنا ہے۔ انہوں نے کہا میری کوشش ہے کہ میں آنے والی نسلوں کو، مہمانوں کو کیونکہ درخت کا کام سایہ دینا ہی ہوتا ہے۔ اقبال مسعود سے جب ہم نے ان کے لکھے گئے پہلے افسانے کے تعلق سے پوچھا انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک خاص قبیلے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا پہلا افسانہ بھی قبیلے کے تعلق سے ہی تھا۔ اور بھوپال میں نکلنے والے ایک رسالے میں شائع بھی ہوا تھا۔ اور اسی سال میں میری کچھ نظمیں اور تنقیدی مضامین بھی شک شائع ہوئے۔
مزید پڑھیں: اردو زبان کو عام کرنے اور نئی نسل کو واقف کروانے کی ضرورت
انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق پٹھان قبیلے سے ہے اور میری معلومات پٹھان قبیلے سے زیادہ رہی ہے اس یہی وجہ ہے کہ میرا پہلا افسانہ بھی انہی پر لکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پٹھان قبیلے سے تعلق ہونے کے سبب میرے والد پشتو زبان بولتے تھے اور اسی کی مٹھاس اس کی نرمی، اس کا خلوص میرے کانوں میں بھی گونجتی رہی اور میں نے اردو زبان میں بھی وہی سب تلاش کیا اور اب کوشش یہ کرتا ہوں کہ پٹھانوں کی محبت جو کی ان کا اصل ورثہ ہے وہ قائم رہے۔ اقبال مسعود نے اپنے کلام ہمارے ناظرین کے لیے کچھ اس طرح سے بیان کیے۔
زرد ہوتا گیا مہتاب شب تاب کا رنگ۔
چاندنی پا نہ سکی صبح کا دوشیزہ جمال۔
اقبال مسعود سے اس سوال پر کہ ان کی ادبی زندگی میں ان کے استاد کون رہے اس پر انہوں نے بتایا کہ میں نے پوری زندگی میں اگر کسی کو استاد مانا ہو تو وہ پروفیسر عبدالقوی دسنوی ہے اور ان سے تعلق تب ہوا جب وہ اعلی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اور اس کے بعد سے اب تک یہ صورتحال رہی ہے کہ میں نے کسی کو اپنا استاد نہیں بنایا ہے۔ انہوں نے کہا میں مطالعہ کرتے رہتا ہوں پڑھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں جو پڑھ رہا ہوں ویسے ہی سیکھ جاؤں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے شہر کے بڑے ادیب پروفیسر افاق احمد میں نے ان کے زندگی کے ہر پہلو کو سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ پروفیسر افاق ایک ایسے شخص تھے جنہیں کسی بھی محفل میں کھڑا کر دیا جائے اور کوئی بھی موضوع دے دیا جائے وہ اس پر باکمال بات کرتے تھے۔ وہیں صحافت میں بھی قمر کمال صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا انہوں نے کہا میں خوش قسمت ہوں کہ میرا کوئی استاد مہا بھارت کہ اس کردار کی طرح نہیں ہوا جو اپنا انگوٹھا کٹوا دیتا کیونکہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ میں ان سے کیا سیکھ رہا ہوں۔
اس سوال پہ کی اقبال مسعود کی اب تک کے کتنی کتابیں منظر عام پر ائی اس پر انہوں نے تبصرہ کیا کہ انہوں نے کہا کہ شاعر اور ادیپ اکثر کہتے ہیں کہ ان کا منٹو یا منشی پریم چند سے ہم نے سیکھا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے غالب اور میر سب کو پڑھا ہے انہیں سب کو اچھے سے جانتا ہوں لیکن میری راہ میں نے خود طے کی ہے۔ لیکن مجھے ہر پسند ہے کیونکہ جو لکھتا ہے وہ قابل احترام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر ان کی دو کتابیں منظر عام پر ا چکی ہیں۔ اور چار کتابیں مرتب کی جا چکی ہیں۔ ایک کتاب تنقید کے تعلق سے ہے۔ اور ایک تحقیق کے تعلق سے ہے۔ اس کے علاوہ ایک شعری مجموعہ تیار ہے اور اسے جلد ہی منظر عام پر لایا جائے گا۔ اقبال مسعود نے اپنی شاعری مجموعے سے کچھ قطعات ای ٹی وی بھارت کے ناظرین کے لیے پیش کیے۔
دھار لے روپ زلف برہم کا زرد پھولوں کی باز ہو جائے
زندگی کی یہی ردا ہے اگر آؤ ہنس کر اداس ہو جائے
کتنی افسردہ اور بے جان نظر آتی ہے
اس میں تو میرے خیالات کی تنویر نہیں
میرے احساس سے آزاد میرے غم سے پرے
میری تصویر ہے لیکن میری تصویر نہیں
یہ تھے دارالحکومت بھوپال کے ممتاز ادیب و شاعر اقبال مسعود جنہوں نے اپنے ادبی زندگی اور اردو کے تئیں خدمات پر اپنے خیالات کا اظہار ای ٹی وی بھارت اردو پر کیا۔