ETV Bharat / state

'بھارت کی آزادی میں سبھی مذاہب کا خون شامل ہے' - معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کی خبر

مدھیہ پردیش کے صنعتی شہر اندور میں معروف شاعر راحت اندوری سے جب ای ٹی وی بھارت نے یہ سوال کیا کہ 'سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں، کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے'۔ کس پس منظر میں لکھا گیا تھا تو ان کا جواب تھا ۔۔۔۔۔

معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری
معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری
author img

By

Published : Feb 5, 2020, 4:51 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 7:03 AM IST

ریاست مدھیہ پردیش کے صنعتی شہر اندور میں معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے یوں تو کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ان کے اشعار کافی پڑھے اور سنے جاتے ہیں مگر موجودہ دور میں ان کا ایک شعر 'سبھی کا خون ہے شامل ہے یہاں کی مٹی میں......، خوب پڑھا اور سنا جا رہا ہے۔ اور سی اے اے مخالف مظاہروں میں اس شعر کو چہار جانب پڑھا جا رہا ہے۔


اسی تعلق سے جب ڈاکٹر راحت اندوری سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات سے اس شعر کا کوئی تعلق نہیں ہے، تقریبا 20 سے 30 برس قبل یہ شعر پڑھا گیا تھا اور میں اس کو بھول بھی گیا تھا مگر پچھلے دو تین برس سے میں جہاں بھی جاتا ہوں اس شعر کی فرمائش کی جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر پھر سے وجود میں آگیا ہے۔

معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم 20 سے 30 برس قبل اور آج کے حالات میں کیا مماثلت ہے، اگر یہ شعر خوب پڑھا اور سنا جا رہا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کا شعر بنا دیا گیا ہے، بلکہ یہ نہ تو مسلمان کا شعر ہے اور نہ ہی ہندوؤں کا شعر ہے، یہ شعر ہر اس بھارتی کے لیے ہے جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

میں نے اس شعر کی پہلی لائن میں صاف لکھا ہے کہ 'سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں، اس میں کسی ہندو یا مسلمان کا اشارہ نہیں ہے بلکہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور جتنے بھی مذاہب کے لوگ یہاں رہتے ہیں ان سب کا ملک کی آزادی میں، ملک کے تحفظ میں کل بھی شامل تھے اور آج بھی ہیں۔

معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم کے تعلق سے راحت اندوری نے کہا کہ جن لوگوں کو فیض کا مطلب بھی نہیں معلوم ہے وہ لوگ فیض پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیض کی نظموں سے ابھی یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ جو لوگ اس نامور شاعر کو نہیں جانتے تھے وہ بھی جاننے لگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیض کو بدنام کرنا کسی میڈیا کی سازش نہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی ہے جنہیں کوئی شوشہ چاہیے جس پر وہ اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔

ریاست مدھیہ پردیش کے صنعتی شہر اندور میں معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کے یوں تو کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ان کے اشعار کافی پڑھے اور سنے جاتے ہیں مگر موجودہ دور میں ان کا ایک شعر 'سبھی کا خون ہے شامل ہے یہاں کی مٹی میں......، خوب پڑھا اور سنا جا رہا ہے۔ اور سی اے اے مخالف مظاہروں میں اس شعر کو چہار جانب پڑھا جا رہا ہے۔


اسی تعلق سے جب ڈاکٹر راحت اندوری سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات سے اس شعر کا کوئی تعلق نہیں ہے، تقریبا 20 سے 30 برس قبل یہ شعر پڑھا گیا تھا اور میں اس کو بھول بھی گیا تھا مگر پچھلے دو تین برس سے میں جہاں بھی جاتا ہوں اس شعر کی فرمائش کی جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر پھر سے وجود میں آگیا ہے۔

معروف عالمی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم 20 سے 30 برس قبل اور آج کے حالات میں کیا مماثلت ہے، اگر یہ شعر خوب پڑھا اور سنا جا رہا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کا شعر بنا دیا گیا ہے، بلکہ یہ نہ تو مسلمان کا شعر ہے اور نہ ہی ہندوؤں کا شعر ہے، یہ شعر ہر اس بھارتی کے لیے ہے جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

میں نے اس شعر کی پہلی لائن میں صاف لکھا ہے کہ 'سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں، اس میں کسی ہندو یا مسلمان کا اشارہ نہیں ہے بلکہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور جتنے بھی مذاہب کے لوگ یہاں رہتے ہیں ان سب کا ملک کی آزادی میں، ملک کے تحفظ میں کل بھی شامل تھے اور آج بھی ہیں۔

معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم کے تعلق سے راحت اندوری نے کہا کہ جن لوگوں کو فیض کا مطلب بھی نہیں معلوم ہے وہ لوگ فیض پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیض کی نظموں سے ابھی یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ جو لوگ اس نامور شاعر کو نہیں جانتے تھے وہ بھی جاننے لگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فیض کو بدنام کرنا کسی میڈیا کی سازش نہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی ہے جنہیں کوئی شوشہ چاہیے جس پر وہ اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔

Intro:سبھی کا خون شامل ہے کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے


Body: مدھیہ پردیش کے صنعتی شہر اندور میں شاعر راحت اندوری نے کہا سبھی مذاہب کا خون شامل ہے ہندوستان کی مٹی میں
اندور: شاعر راحت اندوری کے یوں تو کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ان کے شعر کافی پڑھے اور سنے جاتے ہیں مگر موجودہ دور میں ان کا ایک شہر سبھی کا خون شامل ہیں یہاں کی مٹی خوب پڑھا اور سنا جا رہا ہے اسی تعلق سے جب راحت اندوری سے بات چیت شروع کی تو اندوری نے کہا موجودہ حالات سے اس شعر کا کوئی تعلق نہیں ہے تقریبا 20_ 30 برس قبل یہ شعر پڑھا گیا تھا اور میں اس کو بھول بھی گیا تھا مگر پچھلے دو تین برس سے میں جہاں بھی جاتا ہوں اس شعر کی فرمائش کی جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر فر سے وجود میں آگیا ہے مجھے نہیں معلوم 20_30 برس قبل اور آج کے حالات میں کیا معذرت ہے اگر یہ شعر خوب پڑھا اور سنا جا رہا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اسے کو مسلمانوں کا شعار بنا دیا گیا ہے بلکہ یہ نامسلمان کا شعر ہے اور نہ ہی ہندوؤں کا شعر ہے بلکہ ہر اس ہندوستانی کے لئے ہے جو اپنی وطن سے محبت کرتا ہے اور اس کے لئے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے میں نے اس شعر کی پہلی لائن میں صاف لکھا ہے کہ سبھی کا خون شامل یہاں کی مٹی میں اس میں کسی ہندو یا مسلمان کا اشارہ نہیں ہے بلکہ ہندو مسلم سکھ عسائی جتنے بھی مذاہب کے لوگ ہندو مسلم سکھ عسائی جتنے بھی مذاہب کے لوگ یہاں رہتے ہیں ان سب کا ملک کی آزادی میں ملک کے تحفظ میں کل بھی شامل تھے اور آج بھی ہے
فیض احمد فیض کی نظم کے تعلق سے راحت اندوری نے کہا کہ جن لوگوں کو فیض کے مطلب بھی نہیں معلوم ہے اس کی نظموں سے ابھی یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ جو لوگ اس نامورشاعر کو نہیں جانتے تھے جراطے انکار کرنا بھی جانتا تھا یہ کسی میڈیا کی سازش نہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی ہے ہے جن کو کوئی شوشا چاہیے جو اپنی سیاسی روٹیاں سیکس کے


Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 7:03 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.