ETV Bharat / state

Reactions on Budget 2023 مرکزی بجٹ سے اقلیتی طبقے میں مایوسی

author img

By

Published : Feb 1, 2023, 9:47 PM IST

Updated : Feb 2, 2023, 12:55 PM IST

آج مرکزی حکومت نے عام بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ سے مدھیہ پردیش کے مسلم طبقے میں ناراضگی دیکھی گئی ہے۔ مسلم طبقہ کا کہنا ہے کی اقلیتی طبقے اور پسماندہ طبقات کو اس بار کی بجٹ سے پوری طرح سے فراموش کر دیا گیا ہے جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔

Reactions on Budget 2023
Reactions on Budget 2023
مرکزی بجٹ سے اقلیتی طبقے میں مایوسی

بھوپال: مرکزی حکومت کے ذریعے آج عام بجٹ پیش کیا گیا۔ لیکن اس عام بجٹ سے ریاست مدھیہ پردیش کے مسلم طبقہ میں مایوسی دیکھی گئی ہے۔ مسلم وکاس پریشد کے صدر محمد ماہر نے کہا ہماری مرکزی حکومت نے پچھلے سال جو بجٹ پیش کیا تھا اسے اب تک پورا نہیں کر پائی ہے۔ اب یہ نیا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اس بجٹ میں دیکھا جائے تو اس میں صاف طور سے نظر آ رہا ہے کہ بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ 80 کروڑ لوگوں کو اناج دیا جاتا ہے نوجوانوں کو بھتہ دیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس بجٹ میں کسی بھی طبقے کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ چاہے پھر وہ ایس ٹی، ایس سی یا پھر اقلیتی طبقہ ہو۔ مسلم طبقہ کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں اقلیتی طبقہ کو پوری طرح سے فراموش کر دیا گیا ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے وزیر اعظم بات کرتے ہیں کہ مسلمان کے ایک ہاتھ میں قرآن تو دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہاں اس کے برخلاف کام کیے جا رہے ہیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ ہم پسماندہ طبقات کا خیال رکھیں گے ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا جائے گا، لیکن آج جو بجٹ پیش کیا گیا۔ اس میں پسماندہ طبقات کو فراموش کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پر صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کے کہنے میں اور کرنے میں فرق ہے اور دیکھا جائے تو ان کی باتوں میں کوئی دم کوئی سچائی نہیں ہے۔ مسلم مہاسبھا کے صدر منور خان نے کہا بجٹ میں حکومت کا انکم ٹیکس سلیب پر زیادہ فوکس نظر آرہا ہے۔ باقی ساری اہم چیزوں کو فراموش کر دیا گیا ہے، جس میں اقلیتی طلبات کے وظائف، بے روزگاروں کے لیے ملازمت جیسے مسائل کو چھپا دیا گیا ہے۔ آج کے بجٹ میں صرف انکم ٹیکس سلیب کو زیادہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس سے ہندوستان کی پوری تصویر بدل جائے گی۔ لیکن ہمیں اس بجٹ سے مایوسی ہے کیونکہ اس سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا نہ کے کچھ فائدہ۔ سماجی کارکن ریئسہ ملک نے بجٹ کے تعلق سے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے نوجوانوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔جہاں 740 اسکول کھولے جا رہے ہیں تو وہی پرانے اسکول بند کیے جا رہے ہیں۔ کتابوں پر جی ایس ٹی لگا دی گئی ہے اور مہنگائی کی وجہ سے طلباء تعلیم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہیں اس بجٹ کے ذریعے خواتین کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے، خواتین سے کہا جا رہا ہے کہ بچت کھاتا کھولیے جس میں 5.7 فیصد سود دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا جب خواتین اس مہنگائی کے چلتے پیسے بچا ہی نہیں پائے گی۔ کیونکہ رسوئی کا ہر سامان مہنگا ہو گیا ہے۔ جس میں آٹا 26 روپے کلو سے 32 روپے کلو تک مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ پورے ملک کے لوگوں کو تقسیم کر مہنگائی ‏سے دھیان بھٹکا کر اس بجٹ کو پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا اب عوام بیدار ہوچکی ہے اور وہ سب چیزیں سمجھ رہی ہے اور اس بجٹ پر غور کرے گی کیونکہ حکومت نے بزرگوں کو ریلوے میں دیے جانے والی رعایت بند کر دی ہے۔ خواتین کو دی جانے والی رعایت بھی بند کر دی گئی ہے، صحافیوں کو ملنے والا کوٹہ بھی بند کر دیا گیا۔ رئیسہ ملک نے کہا ان سب چیزوں کی بات اس بجٹ میں کیوں نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا اگر حکومت سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلے گی تبھی ملک کی ترقی ہو سکتی ہے ورنہ ترقی کے امکان نہیں ہے۔

بزم ضیا کے صدر فرمان ضیائی نے کہا بجٹ سے یہ توقع تھی کہ اقلیتوں کے لیے بہت کچھ انتظام کیا جائے گا۔ جس طرح سے ملک میں ایک لویہ اسکول کھولے گئے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان کے لئے بھی اسکول کھولے جائیں گے اردو اساتذہ کی تقرری ہو گئی لیکن اس بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس بجٹ میں اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے۔ انہوں نے کہا اگر حکومت سچرکمیٹی کی رپورٹ کو نافذ کر دیتی ہیں تو اقلیتوں کی حالات بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت جان بوجھ کر اس طرح کے اقدامات اٹھا رہی ہے اور اقلیتوں کو سرے سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ فرمان ضیا نے کہا اعلان تو بہت کیے جا رہے ہیں لیکن اس کی زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ اس لئے آج کے اس بجٹ سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔

وہی بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم ونگ کے ممبر جاوید بھی کہتے ہیں کہ ہم اس بجٹ کو اچھے نظریے سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ سرکاری ملازمین کا پرانا مطالبہ تھا جس پر حکومت نے غور کیا اور اسے پورا کیا اور اس بجٹ سے سرکاری ملازمین کو راحت ملے گی۔ آل انڈیا اتحاد المسلمین بھوپال کے ذمہ دار قاضی انس کہتے ہیں کہ آج کے اس بجٹ میں اقلیتوں کا کچھ بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ جس طرح سے مسلم طبقہ کو اقلیتی طبقے میں شامل کیا گیا ہے وہی یہ کیوں نہیں کہا جاتا ہے کہ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ انہوں نے کہا اس بجٹ میں مسلم کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ نہ تو ہمارے بچوں کے وظائف میں اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ریزرویشن دیا گیا ہے۔ جب اقلیتی طبقات کو کہیں نہیں رکھا گیا ہے تو یہ بجٹ ہمارے لیے معنی نہیں رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ اس بار کے بجٹ میں وزارت اقلیتی فلاح و بہبود کے بجٹ میں بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ اس بار وزارت اقلیتی فلاح و بہبود کو 2023-24 کے لیے 3097 کروڑ کا بجٹ دیا گیا ہے۔ جبکہ 2022-23 میں یہی بجٹ 5020 کروڑ تھا۔ لیکن 2022-23 میں 2612 کروڑ ہی خرچ ہو پایا ہے۔مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن بند ہونے کے قریب ہے۔جس سے 10 لاکھ کا بجٹ دیا گیا۔نئی منزلوں کو بھی صرف دس لاکھ کا بجٹ دیا گیا۔اسکیل ڈویلپمنٹ کو بھی صرف 10لاکھ دیئے گئے جبکہ پچھلے سال اسکیل ڈویلپمنٹ کا 100 کروڑ کا بجٹ تھا۔ یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے اقلیتی طلباء کے لئے چلنے والی اسکیم کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Reactions on Budget 2023 یہ بجٹ ملک کی بے روزگاری کو دور نہیں کرسکتا

مرکزی بجٹ سے اقلیتی طبقے میں مایوسی

بھوپال: مرکزی حکومت کے ذریعے آج عام بجٹ پیش کیا گیا۔ لیکن اس عام بجٹ سے ریاست مدھیہ پردیش کے مسلم طبقہ میں مایوسی دیکھی گئی ہے۔ مسلم وکاس پریشد کے صدر محمد ماہر نے کہا ہماری مرکزی حکومت نے پچھلے سال جو بجٹ پیش کیا تھا اسے اب تک پورا نہیں کر پائی ہے۔ اب یہ نیا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ اس بجٹ میں دیکھا جائے تو اس میں صاف طور سے نظر آ رہا ہے کہ بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ 80 کروڑ لوگوں کو اناج دیا جاتا ہے نوجوانوں کو بھتہ دیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس بجٹ میں کسی بھی طبقے کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ چاہے پھر وہ ایس ٹی، ایس سی یا پھر اقلیتی طبقہ ہو۔ مسلم طبقہ کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں اقلیتی طبقہ کو پوری طرح سے فراموش کر دیا گیا ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے وزیر اعظم بات کرتے ہیں کہ مسلمان کے ایک ہاتھ میں قرآن تو دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہاں اس کے برخلاف کام کیے جا رہے ہیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ ہم پسماندہ طبقات کا خیال رکھیں گے ان کی ہر ضرورت کو پورا کیا جائے گا، لیکن آج جو بجٹ پیش کیا گیا۔ اس میں پسماندہ طبقات کو فراموش کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پر صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کے کہنے میں اور کرنے میں فرق ہے اور دیکھا جائے تو ان کی باتوں میں کوئی دم کوئی سچائی نہیں ہے۔ مسلم مہاسبھا کے صدر منور خان نے کہا بجٹ میں حکومت کا انکم ٹیکس سلیب پر زیادہ فوکس نظر آرہا ہے۔ باقی ساری اہم چیزوں کو فراموش کر دیا گیا ہے، جس میں اقلیتی طلبات کے وظائف، بے روزگاروں کے لیے ملازمت جیسے مسائل کو چھپا دیا گیا ہے۔ آج کے بجٹ میں صرف انکم ٹیکس سلیب کو زیادہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس سے ہندوستان کی پوری تصویر بدل جائے گی۔ لیکن ہمیں اس بجٹ سے مایوسی ہے کیونکہ اس سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگا نہ کے کچھ فائدہ۔ سماجی کارکن ریئسہ ملک نے بجٹ کے تعلق سے کہا کہ اس بجٹ کے ذریعے نوجوانوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔جہاں 740 اسکول کھولے جا رہے ہیں تو وہی پرانے اسکول بند کیے جا رہے ہیں۔ کتابوں پر جی ایس ٹی لگا دی گئی ہے اور مہنگائی کی وجہ سے طلباء تعلیم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہیں اس بجٹ کے ذریعے خواتین کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے، خواتین سے کہا جا رہا ہے کہ بچت کھاتا کھولیے جس میں 5.7 فیصد سود دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا جب خواتین اس مہنگائی کے چلتے پیسے بچا ہی نہیں پائے گی۔ کیونکہ رسوئی کا ہر سامان مہنگا ہو گیا ہے۔ جس میں آٹا 26 روپے کلو سے 32 روپے کلو تک مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ پورے ملک کے لوگوں کو تقسیم کر مہنگائی ‏سے دھیان بھٹکا کر اس بجٹ کو پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا اب عوام بیدار ہوچکی ہے اور وہ سب چیزیں سمجھ رہی ہے اور اس بجٹ پر غور کرے گی کیونکہ حکومت نے بزرگوں کو ریلوے میں دیے جانے والی رعایت بند کر دی ہے۔ خواتین کو دی جانے والی رعایت بھی بند کر دی گئی ہے، صحافیوں کو ملنے والا کوٹہ بھی بند کر دیا گیا۔ رئیسہ ملک نے کہا ان سب چیزوں کی بات اس بجٹ میں کیوں نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا اگر حکومت سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلے گی تبھی ملک کی ترقی ہو سکتی ہے ورنہ ترقی کے امکان نہیں ہے۔

بزم ضیا کے صدر فرمان ضیائی نے کہا بجٹ سے یہ توقع تھی کہ اقلیتوں کے لیے بہت کچھ انتظام کیا جائے گا۔ جس طرح سے ملک میں ایک لویہ اسکول کھولے گئے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان کے لئے بھی اسکول کھولے جائیں گے اردو اساتذہ کی تقرری ہو گئی لیکن اس بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس بجٹ میں اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے۔ انہوں نے کہا اگر حکومت سچرکمیٹی کی رپورٹ کو نافذ کر دیتی ہیں تو اقلیتوں کی حالات بھی بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت جان بوجھ کر اس طرح کے اقدامات اٹھا رہی ہے اور اقلیتوں کو سرے سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ فرمان ضیا نے کہا اعلان تو بہت کیے جا رہے ہیں لیکن اس کی زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ اس لئے آج کے اس بجٹ سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔

وہی بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم ونگ کے ممبر جاوید بھی کہتے ہیں کہ ہم اس بجٹ کو اچھے نظریے سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ سرکاری ملازمین کا پرانا مطالبہ تھا جس پر حکومت نے غور کیا اور اسے پورا کیا اور اس بجٹ سے سرکاری ملازمین کو راحت ملے گی۔ آل انڈیا اتحاد المسلمین بھوپال کے ذمہ دار قاضی انس کہتے ہیں کہ آج کے اس بجٹ میں اقلیتوں کا کچھ بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ جس طرح سے مسلم طبقہ کو اقلیتی طبقے میں شامل کیا گیا ہے وہی یہ کیوں نہیں کہا جاتا ہے کہ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ انہوں نے کہا اس بجٹ میں مسلم کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ نہ تو ہمارے بچوں کے وظائف میں اضافہ کیا گیا ہے اور نہ ریزرویشن دیا گیا ہے۔ جب اقلیتی طبقات کو کہیں نہیں رکھا گیا ہے تو یہ بجٹ ہمارے لیے معنی نہیں رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ اس بار کے بجٹ میں وزارت اقلیتی فلاح و بہبود کے بجٹ میں بھاری کٹوتی کی گئی ہے۔ اس بار وزارت اقلیتی فلاح و بہبود کو 2023-24 کے لیے 3097 کروڑ کا بجٹ دیا گیا ہے۔ جبکہ 2022-23 میں یہی بجٹ 5020 کروڑ تھا۔ لیکن 2022-23 میں 2612 کروڑ ہی خرچ ہو پایا ہے۔مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن بند ہونے کے قریب ہے۔جس سے 10 لاکھ کا بجٹ دیا گیا۔نئی منزلوں کو بھی صرف دس لاکھ کا بجٹ دیا گیا۔اسکیل ڈویلپمنٹ کو بھی صرف 10لاکھ دیئے گئے جبکہ پچھلے سال اسکیل ڈویلپمنٹ کا 100 کروڑ کا بجٹ تھا۔ یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے اقلیتی طلباء کے لئے چلنے والی اسکیم کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Reactions on Budget 2023 یہ بجٹ ملک کی بے روزگاری کو دور نہیں کرسکتا

Last Updated : Feb 2, 2023, 12:55 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.