بھوپال : ریاست مدھیہ پردیش میں 17 نومبر کو انتخابات ہونا ہیں۔ اس بار دونوں ہی اہم پارٹیاں کانگرس اور بی جے پی کے ذریعہ مسلم طبقہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہی مسلم طبقے نے جہاں کانگرس پارٹی سے زیادہ ٹکٹ کی امید لگا رکھی تھی لیکن کانگرس نے محض دو ٹکٹ دے کر ہی مسلم طبقے کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جس سے مسلم طبقے میں ناراضگی ہے۔ ساتھ ہی مسلم رہنما بھی ناراض نظر ارہے ہیں۔
جب ای ٹی وی بھارت نے بھوپال کے سینیئر صحافی ظفر عالم اور مہتاب عالم سے اسمبلی انتخابات پر خصوصی گفتگو کی انہوں نے کئی اہم پہلو پر روشنی ڈالی۔ ظفر عالم نے بتایا کہ جس طرح سے پارٹیوں نے فیصلے لیے ہیں اس سے عوام تو خوش ہے لیکن مسلم طبقہ ناراض ہے۔ کانگرس سے اس لیے ناراض ہے کیونکہ کانگرس لگاتار ہماری اندیکھی کر رہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے اور لگاتار مسلم قیادت کو کانگرس ختم کرنے کا کام کر رہی ہے عالمی طور پر بھی اور صوبائی طور پر بھی۔
جب ہم نے اس تعلق سے سینیئر صحافی ڈاکٹر مہتاب عالم سے یہ سوال پوچھا کہ کانگریس سے اس بار نارضگی کیوں ہے تو اس پر انہوں نے کہا کہ جس طرح سے پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اس میں ساری پارٹیوں کا نظریہ مسلم قیادت کو لے کر ایک ہی ہے کہ ووٹ سب کو چاہیے لیکن مسلم قیادت کو حاشیے پر رکھنا ہے۔ جب اقلیتوں کی بات ہوتی ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کانگرس کے ساتھ ہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ راجیہ سبھا میں کانگرس پارٹی کی طرف سے کسی کو نہیں بھیجا گیا لیکن بھارتی جنتہ پارٹی نے نجمہ ہے اللہ اور ایم جے اکبر کو بھیجا ہے۔ جب ہم 1980 سے لے کر اب تک کی بات کرتے ہیں تو کانگرس کی طرف سے مسلم قیادت میں ڈاؤن فال دیکھا گیا ہے۔ ہم جب پچھلے اسمبلی انتخابات کی بات کرتے ہیں تو کامرس کی طرف سے مسلم طبقے کو 3 ٹکٹ دیے گئے تھے۔ اور اس سے پہلے 4 ٹکٹ دیے گئے تھے اور اس بار محض 2 ٹکٹ پر ہی مطمئن کر دیا گیا۔ اور انہیں ووٹ مسلم طبقے سے 80 سے 90 فیصد چاہیے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت کو لے کر اس بار مسلم طبقے میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ دیگر پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو وہاں سے کھڑا کر دیا جہاں پر کانگرس کو نقصان ضرور ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع برہانپور میں کانگرس کا امیدوار میئر انتخابات میں اتحاد المسلمین کے امیدوار سے ہار گیا۔ اس سوال پر کہ کانگرس نے جہاں اپنے مسلم مضبوط امیدوار کھڑے کیے ہیں وہاں پر وہاں پر آزاد امیدوار ان کے قلعے کو ڈھانے پر آمدہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان سیٹوں پر لوگوں نے بغاوت کی ہے جہاں پر انہیں امید تھی کہ کانگرس پارٹی انہیں اپنا امیدوار بنائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا شمالی اسمبلی حلقے میں عارف عقیل کے بیٹے عاطف عقیل کو ٹکٹ دے دیا گیا لیکن وہیں کانگرس کے جو سینئر لیڈران شمالی اسمبلی حلقے سے انتخابات لڑ سکتے تھے انہیں فراموش کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:Arif Masood's Public Campaign عارف مسعود کی عوامی رابطہ مہم میں عوام کا ہجوم
ڈاکٹر مہتاب عالم نے کہا کہ ریاست مدھیہ پردیش کو 1956 میں ریاست کا درجہ دیا گیا۔ اور تب سے لے کر اب تک ریاست میں جو اقتدار تھا وہ بھارتی جنتہ پارٹی اور کانگرس کے بیچ ہی گھوم رہا ہے۔ کیونکہ ریاست میں کبھی کانگرس کی تو کبھی بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت رہی ہے۔ اور جب ہم پچھلے تین انتخابات کی بات کرتے ہیں تو جس میں 2008،2013 اور 2018 کی بات کرتے ہیں تو بی جے پی نے عارف بیگ، فاطمہ رسول کو ٹکٹ دیا لیکن اس جگہ سے جہاں سے مسلم طبقے کی نمائندگی رہی ہے۔ لیکن مسلم طبقہ اور دوسری جگہوں پر بھی ٹکٹ مانگ رہا ہے۔ پارٹیاں مسلم طبقے کو وہ رہنمائی نہیں دے پا رہی ہے جو دینا چاہیے۔