ETV Bharat / state

چمن محل اور رانی محل، گوند آرٹ اور مغل آرٹ کا بہترین نمونہ - مغل آرٹ

بھوپال میں مغلیہ دور کی کئی تاریخی عمارتیں موجود ہیں ان میں بھوپال کے بانی سردا دوست محمد خان کے ذریعے تعمیر کردہ دو قلعے چمن محل اور رانی محل فن تعمیر کے نادر نمونے ہیں۔

چمن محل
author img

By

Published : Mar 21, 2019, 8:13 AM IST


بھوپال کو نوابوں کی نگری اور جھیلوں و تالابوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے امتیازات میں جہاں قدرت کا حسن شامل ہے وہیں اسے مساجد اور مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

وسط ہند میں بھوپال ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ بھوپال کو مالوہ اور گونڈوانا کے بیچ حد فاصلکی حیثیت حاصل تھی۔اس خطےمیں مسلم عہد حکومت سے قبل پرمار اور گونڈ راجاؤں کی حکومت رہی ہے۔

بھوپال میں مسلم عہد حکومت کا آغاز سردار دوست محمد خان سے ہوتا ہے۔ سردار دوست محمد خان کا تعلق افغانستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں تراہ سے تھا۔ سنہ 1692 میں سردار دوست محمد خان افغانستان سے بھارت آئے اور مغل بادشاہ اورنگ زیب کی فوج میں شامل ھوئے۔

اورنگ زیب کے انتقال کے بعد عنان حکومت کو لے کر دوست محمد خان نے شاہی فوج سے مستعفی ہونے میں اپنی عافیت سمجھی اور سن 1708 میں شاہی فوج سے استعفی دے کر مالوہ قسمت آزمانے نکل پڑے اور رفتہ رفتہ اپنی ذہانت اور شجاعت سے اس پاس کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کر لی۔

سردار دوست محمد خان نے اپنے والد کے نام سے اسلام نگر بسایا جس میں سب سے پہلے چمن محل 1715 میں بنایا گیا۔ اور اس کے بعد انہوں نےسنہ 1720 میںرانی محل میں تعمیر کرایا۔

مورخ رضوان انصاری چمن محل کے تعلق سے کہتے ہیں: ' چمن محل میں صرف مردوں کے رکنے کا انتظام کیا جاتا تھا، جہاں پر بڑے بڑے عہدیدار اور خود سردار دوست محمد خان آرام کیا کرتے تھے۔ اس محل کی تعمیر میں گوند آرٹ کے ساتھ مغل آرٹ بھی نظر آتا ہے۔ اس محل میں الگ الگ قسم کی طاقیںبنائی گئی ہیں جو محل کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے۔

وہیں رانی محل میں صرف اور صرف خواتین ہی رہا کرتی تھیں، یہمحل چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے جس میں خواتین کے پردے کا خاص دھیان رکھا گیا ہے۔ اس محل کے بیچوں بیچ ایک باغ بنایا گیا ہے۔

بھوپال سے 20 کلومیٹر دور اسلام نگر میں یہ دونوں چمن محل اور رانی محل آج بھی اپنی شان و شوکت سے لوگوں کو راغب کر رہے ہیں۔ تین سو سال پرانا یہمحل آثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہے اور اسکی دیکھ دیکھ بھی اچھے طریقے سے کی جا رہی ہے۔


بھوپال کو نوابوں کی نگری اور جھیلوں و تالابوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر کے امتیازات میں جہاں قدرت کا حسن شامل ہے وہیں اسے مساجد اور مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

وسط ہند میں بھوپال ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ بھوپال کو مالوہ اور گونڈوانا کے بیچ حد فاصلکی حیثیت حاصل تھی۔اس خطےمیں مسلم عہد حکومت سے قبل پرمار اور گونڈ راجاؤں کی حکومت رہی ہے۔

بھوپال میں مسلم عہد حکومت کا آغاز سردار دوست محمد خان سے ہوتا ہے۔ سردار دوست محمد خان کا تعلق افغانستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں تراہ سے تھا۔ سنہ 1692 میں سردار دوست محمد خان افغانستان سے بھارت آئے اور مغل بادشاہ اورنگ زیب کی فوج میں شامل ھوئے۔

اورنگ زیب کے انتقال کے بعد عنان حکومت کو لے کر دوست محمد خان نے شاہی فوج سے مستعفی ہونے میں اپنی عافیت سمجھی اور سن 1708 میں شاہی فوج سے استعفی دے کر مالوہ قسمت آزمانے نکل پڑے اور رفتہ رفتہ اپنی ذہانت اور شجاعت سے اس پاس کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی ایک علیحدہ ریاست قائم کر لی۔

سردار دوست محمد خان نے اپنے والد کے نام سے اسلام نگر بسایا جس میں سب سے پہلے چمن محل 1715 میں بنایا گیا۔ اور اس کے بعد انہوں نےسنہ 1720 میںرانی محل میں تعمیر کرایا۔

مورخ رضوان انصاری چمن محل کے تعلق سے کہتے ہیں: ' چمن محل میں صرف مردوں کے رکنے کا انتظام کیا جاتا تھا، جہاں پر بڑے بڑے عہدیدار اور خود سردار دوست محمد خان آرام کیا کرتے تھے۔ اس محل کی تعمیر میں گوند آرٹ کے ساتھ مغل آرٹ بھی نظر آتا ہے۔ اس محل میں الگ الگ قسم کی طاقیںبنائی گئی ہیں جو محل کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے۔

وہیں رانی محل میں صرف اور صرف خواتین ہی رہا کرتی تھیں، یہمحل چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے جس میں خواتین کے پردے کا خاص دھیان رکھا گیا ہے۔ اس محل کے بیچوں بیچ ایک باغ بنایا گیا ہے۔

بھوپال سے 20 کلومیٹر دور اسلام نگر میں یہ دونوں چمن محل اور رانی محل آج بھی اپنی شان و شوکت سے لوگوں کو راغب کر رہے ہیں۔ تین سو سال پرانا یہمحل آثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہے اور اسکی دیکھ دیکھ بھی اچھے طریقے سے کی جا رہی ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.