ہزاروں دلوں کی دھڑکن کو اردو شاعری میں نمایاں کرنے والے ہر دلعزیز شاعر بشیر بدر کا آج 15 فروری کو یوم پیدائش ہے- 15 فروری سنہ 1935 کو قاضی شاہ محمد نذیر کے گھر سید محمد بشیر پیدا ہوئے، جو آگے چل کر بشیر بدر کے نام سے مشہور ہوئے-
بشیر بدر کی شروعاتی تعلیم کانپور میں ہوئی، بچپن سے ہی وہ باادب اور نرم مزاج کے تھے- اس لیے سب لوگ انہیں بہت چاہتے تھے۔
انہوں نے سنہ 1946 میں 11 برس میں پہلی غزل کہی تھی-
جس کا پہلا شعر تھا،
ہوا چل رہی ہے اڑا جارہا ہوں
تیرے عشق میں میں مرا جارہا ہوں
اس شعر کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ وہ علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے، جس میں اقبال کہتے ہیں کہ
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بشیر بدر کی بات کریں تو ان کے والد کا تبادلہ اترپردیش کے شہر اٹاوہ میں ہوا، تو وہ بھی اٹاوا چلے گئے، وہاں کے محلے میں اردو کے مشاعرے میں انہوں نے ایک غزل پڑھی، غزل اتنی پسند کی گئی کہ ان کو بدر کے خطاب سے نوازا گیا- اس طرح سید محمد بشیر، بشیر بدر ہوئے-
شاعری اور تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا اسی دوران ان کے والد سخت بیمار ہوگئے اور سنہ 1959 میں ان کا انتقال ہوگیا-
بشیر بدر نے اپنی پڑھائی روک کر بھائیوں کی ذمہ داری سنبھالی- سنہ 1966 میں بی اے میں داخلہ لیا، پھر ایم اے کیا۔
ان کی شاعری کو اس دور میں بھی اتنی زیادہ اہمیت ملی کہ جس یونیورسٹی میں پڑھتے تھے، اسی کے مضامین میں ان کی غزلیں شامل تھیں- انہیں جدید تر غزل کے نام سے پڑھایا جاتا تھا-
سنہ 1974 میں انہیں پی ایچ ڈی ایوارڈ ملا، انہوں نے پروفیسر آل احمد سرور کے انڈر میں اسکیچ بار اردو غزل کا تکنیکی مطالعہ سبجیکٹ پر تحقیق کی- اس کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں ہی لیکچرر ہوگئے، پھر علی گڑھ سے میرٹھ کالج میں ریڈر اور شعبہ اردو مقرر ہوئے-
آج بشیر بدر کی یوم پیدائش کے موقع پر ان کے دوست اور مدھیہ پردیش کے گورنر لال جی ٹنڈن ان کے گھر پہنچ کر انہیں یوم پیدائش کی مبارکباد پیش کی-
ان کے کچھ اشعار دیکھیں:
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو۔
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے۔
پھر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں۔