مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے حبیب گنج علاقے میں قائم سینٹرل اسکول سے متصل مسجد میں نماز کی ادائیگی کو لیکر تنازعہ کھڑا کیا گیا۔ اطلاع ملتے ہی رکن پارلیمان پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی اسکول پہنچ گئی اور پرنسپل سے پورے معاملے کی معلومات حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ اسکول کیمپس میں اس طرح سے باہری افراد کے آنے سے اسکول کے بچے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں- انہوں نے پرنسپل سے پوچھا کہ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو اسکول میں داخلہ نہیں دیا جاتا ہے تو نماز پڑھنے کے لئے لوگوں کو کیسے اندر گھسنے دیتے ہو- جس پر اسکول پرنسپل کچھ بھی صاف طور سے نہیں جواب دے پائے۔
پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی اور کہا کہ ہمیں بھی اس کی کوئی شکایت ابھی تک نہیں ملی ہے- دراصل پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے بتایا کہ کچھ لوگ ان کے پاس آئے- انہوں نے کہا کہ 7 نمبر بس اسٹاپ واقع سنٹر اسکول کیمپس میں ایک عبادت گاہ ہے- جہاں کچھ لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں- ان کی گاڑیاں باہر پارک ہوتی ہیں- پارکنگ میں پریشانی ہونے کی وجہ سے اسکول پرنسپل نے لوگوں کو دھمکی دیتے ہوئے وہاں لگی دکانیں ہٹانے کو کہا ہے- اس کے علاوہ بچوں کے والدین نے بھی شکایت کی ہے کہ انہیں اسکول کے اندر آنے نہیں دیا جاتا ہے- جن کی شکایت پر 'میں اس اسکول کا معائنہ کرنے یہاں آئی ہوں۔
انہوں نے کہا اسکول کی باؤنڈری کے اندر ایک عبادت گاہ غیر قانونی طور سے تعمیر کی گئی ہے اور جمعہ کی نماز کو یہاں تین سو لوگوں کے قریب لوگ جمع ہوتے ہیں- وہیں موقع پر پہنچے انتظامیہ کے افسروں نے اس پورے معاملے میں اسکول سے معلومات مانگی ہے اور اس پورے معاملے میں آگے کی کاروائی کرنے کی بات کہی ہے-
دوسری جانب پارکنگ کے مسئلے کو مسجد میں نماز سے جوڑے جانے اور نمازیوں سے اسکول کے بچوں کے عدم تحفظ کی بات کو لے کر اقلیتی طبقے کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے- لوگوں کا کہنا ہے کے فرقہ پرست عناصر کو یہ مسجد کھٹک رہی ہے اور اس لیے حیلے بہانے شگوفہ چھوڑکر تنازع پیدا کرنے اور ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے- وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسجد 1976 کی قائم شدہ ہے اور مسجد پرانی سینچائی محکمہ کے نام سے ہے اور اس محکمے کے لوگ اس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے-