بھوپال : اردو مشاعرے کے حوالے سے انجم رہبر کا نام ملک میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انجم رہبر کی پیدائش 17 نومبر 1962 کو مرینہ میں اپنے ننہیال میں ہوئی۔ انجم رہبر نے ابتدائی تعلیم ضلع گنا سے حاصل کی۔ گنا سے انجم رہبر نے ہائی اسکول کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد انجم رہبر بھوپال آگئی اور بھوپال سے انہوں نے ہائی سیکنڈری امتحان پاس کیا۔ انجم رہبر کو اردو شاعری سے لگاؤ گھر سے پیدا ہوا ۔
انہوں نے جب ہائی سیکنڈری کا امتحان پاس کیا تو ان کے مضامین میں اردو شامل تھی لیکن جب انہوں نے جیوا جی یونیورسٹی گوالیار میں داخلہ لیا تو وہاں اردو نہ ہونے کی وجہ سے انجم رہبر نے ہندی سے بی اے اور پھر ہندی لٹریچر میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو شاعری کا فن وراثت میں ملا ہے۔ انہوں نے نویں جماعت سے شاعری کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا لیکن ان کے فن میں نکھار بارویں جماعت میں آنے کے بعد آیا۔ انجم رہبر کے والد شاعر تھے اور انجم کو شاعری نشستوں میں شرکت کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ گھر کے ماحول اور پھر والد کے ساتھ شیری نشستوں میں شرکت سے انجم رہبر کا جو رشتہ شاعری سے استوار ہوا تو وہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی وہ اردو کی ایک اہم شاعرہ میں شمار کی جانے لگیں۔
انجم رہبر نے اپنا پہلا مشاعرہ 1977 میں ہردا میں پڑھا تھا۔ انجم رہبر گزشتہ سالوں سے بھوپال میں مقیم ہے۔ جب ہم نے انجم رہبر سے ان کے ادبی خدمات اور اردو زبان کے تعلق سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میرا ادبی سفر 1977 سے شروع ہوا اور میں کوشش کرتی ہوں کہ اپنی شاعری ہندوستانی زبان میں کروں۔ اس سوال پہ کی شاعری میں ان کے استاد کون تھے۔ انہوں نے اپنا پہلا کلام کیا لکھا۔ اس پر انجم رہبر بتاتی ہیں کہ استاد کی ضرورت سبھی کو ہوتی ہے اور کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلی استاد اس کی ماں ہوتی ہے اور والد بھی استاد ہوتے ہیں۔۔
جی رہی ہوں میں غم اٹھانے کو۔
تاکہ باٹوں خوشی زمانے کو ۔
تیرا نقش قدم جو مل جائے۔
بس یہ کافی ہے سر جھکانے کو۔
اس سوال پہ کی انجم رہبر جو شاعرہ ہے انہوں نے ہمیشہ سے اپنے شاعری کے ذریعے محبت کو عام کیا ہے اور محبت کو بانٹا ہے۔ اس پر انجم رہبر کہتی ہے کہ ہم ہندوستان میں رہتے ہیں اور ہندوستان محبتوں کی سرزمین ہے۔ لیکن اب یہ بات الگ ہے کہ ہندوستان کی اس سرزمین پر محبتوں کی کھیتی کی جا رہی ہے۔ لیکن محبت تو ماں کی گود سے ہی شروع ہو جاتی ہے اس لیے محبت کو عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ محبت پر انجم رہبر نے ہمیں کچھ اپنے اشعار سنائے۔
دفنا دیا گیا مجھے چاندی کی قبر میں۔
میں جس کو چاہتی تھی وہ لڑکا غریب تھا۔
خود کو سنواروں گی گھر کو سجا لوں گی۔
ائے گا وہ جس دن عید منالوں گی۔
انجم رہبر نے بتایا کہ ان کے ادبی سفر کو 40 سال کے قریب ہو چکے ہیں۔ 1977 سے میرے مشاعرے اور قوی سمیلن کا کا سفر شروع ہوا اور اب تک میری دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہے جو دیو ناگری میں ہے۔ اور تیسری کتاب پر ان کے ذریعے کام کیا جا رہا ہے۔ اس سوال پر کہ آج کے دور میں اردو زبان پر بھی ایک طرح سے زوال آیا ہے۔ اس پر انجم رہبر نے کہا کہ میں اس بات کو بالکل بھی نہیں مانتی کہ لوگ کتنی بھی کوشش کر لیں مگر اردو زبان محبتوں کی زبان ہے۔ اور جو کوئی بھی عام زندگی میں اپنی بات کرتا ہے اسے یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ اردو زبان میں بات کر رہا ہے۔
اس سوال پہ کی اج کے دور میں ہماری نئی نسل موبائل کی طرف زیادہ توجہ دے رہی ہے اور کتابوں اور زبان سے دوری بنا رہی ہے اس پر انجم رہبر نے کہا کہ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اور اس دور میں ساری چیزیں موبائل پر ہمیں موصول ہو جاتی ہے چاہے پھر وہ اردو زبان سے جڑی کوئی بات کیوں نہ ہو۔ سوشل میڈیا پہ ایسی کئی کتابیں مل جاتی ہیں جسے ہم موبائل پر ہی پڑھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:Sir Syed Day Celebration تحریک آزادی میں مسلم یونیورسٹی کے طالبات کے کردار پر تصویری نمائش
وہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صج کی نئی نسل شاعری کو بہت پسند کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ضروری نہیں ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں، ہم سب کچھ جو کتاب میں تلاشتے ہیں وہ ہمیں موبائل پر بھی مل جا رہا ہے وہ بھی سبھی زبانوں میں۔