گیس سانحہ کے گزرے ویسے تو 37 برس کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن گیس متاثرین اس سیاہ رات اور اب کی رات میں وہ کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں کرتے ہیں۔ حکومتوں کے دعوی اور وعدے سے ناراض گیس متاثرین نے آج سے 37 دنوں تک اپنے مطالبات کو لیکر مسلسل تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
متاثرین کے لیے کام کرنے والی 4 تنظیموں نے 37 دنوں تک 37 سوالات کو لے کر احتجاجی دھرنا کا اعلان کیا ہے۔ جس میں گیس متاثرین کے معاوضے، ملزمین کو سزا، متاثرین کے لیے علاج، روزگار اور سماجی باز آبادکاری اور اور زمینی آلودگی اور اس کے زہر کی صفائی جیسے معاملے پر دھیان کھینچا جائے گا۔'
بتادیں کہ سنہ 2010 میں مرکز اور ریاستی حکومت نے مانا تھا کہ امریکی کمپنیوں کو اضافی معاوضہ دینا ہوگا پر دونوں حکومتوں نے ہی معاوضہ بڑھانے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن پر جلد سنوائی کے لیے آج تک ایک بھی پٹیشن نہیں لگائی ہے۔ گیس متاثرین جاننا چاہتے ہیں کہ مرکزی اور ریاستی حکومت پچھلے گیارہ برسوں میں اس پٹیشن کی سماعت کیوں نہیں کرا پائی ہے'۔
گذشتہ 7 برسوں میں بھارت میں ڈؤں کیمیکل امریکہ کے کاروبار میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، ان 7 برسوں میں بھوپال ضلع عدالت کے ذریعے کمپنی کے ملزموں کو سمن بھیجے گئے ہیں لیکن کمپنی مسلسل اسے نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہے۔ گیس متاثرین کا سوال ہے کہ اس ملک کے قانون کی اندیکھی کرنے والی کمپنی کو بھارتی حکومت ملک میں تجارت کیوں کرنے دے رہی ہے۔
گیس متاثرین کے علاج اور ان کی باز آباد کاری کرانے میں مرکزی اور ریاستی حکومت کی منشا پر بھی سوال اٹھایا گیاہے۔ 37 سال کے بعد بھی گیس متاثرین کو صرف علامتی علاج ہی دیا جا رہا ہے جو صرف صرف عارضی آرام دے پاتا ہے۔
- مزید پڑھیں: بھوپال گیس سانحہ کی برسی، متاثرین ہنوز انصاف کے منتظر
- گیس متاثرہ بیوہ خواتین کو پنشن دینے کا اعلان
یونین کاربائیڈ کے کارخانے کے اندر اور اس کے آس پاس کی مٹی اور زمینی آلودگی اور زہریلے کیمیکل کی صفائی پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ بھارت اور امریکا دونوں ملکوں کے قانون ڈاؤ کیمیکل سے زمینی آلودگی کے لیے معاوضہ لینے کا حقدار ہے پر اس کے باوجود ریاستی حکومت نے آج تک اس کمپنی کے خلاف کوئی دعوی پیش کیوں نہیں کیا ہے۔'