گلوان وادی کا خبروں میں رہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ 5 مئی کو پانچ ہزار چینی فوجی اہلکار اس علاقے میں میں دو سے تین کلو میٹر اندر بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور مبینہ طور پر اپنا قبضہ جما لیا۔
گلوان وادی کا نام کشمیر کے گلوان قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک گلوان غلام رسول گلوان کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے اس وادی کو تلاش کیا تھا۔
مورخین کا ماننا ہے کہ غلام رسول گلوان سال 1899 اس برطانوی مہم ٹیم کا حصہ تھے جو چینگ چنمو وادی کے شمالی علاقوں کی کھوج میں مصروف تھی اسی مہم کے دوران وہ پہلے اس نامعلوم وادی میں وارد ہوئے۔
معروف مصنف اور کوہ پیما ہریش کپاڈیہ کا کہنا ہے کہ یہ ان شاذ ونادر واقعات میں سے ایک واقعہ ہے کہ ایک بڑے جغرافیائی علاقے کا نام ایک مقامی کھوج کار کے نام پر رکھا گیا ہو۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پی ایچ ڈی اسکالر وارث الانور اپنے ایک مضمون میں مورخین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ غلام رسول گلوان کے والد یارقندی جبکہ ان کی والدہ کا شجرہ نسب کشمیر کے گلوان قبیلے سے ملتا ہے۔ ڈوگرہ حکمران رنبیر سنگھ کی طرف سے گلوانوں کی جلا وطنی کے بعد ان کے دادا لداخ میں سکونت پذیر ہوئے۔