ETV Bharat / state

وزیر اعظم مودی کا دورہ لیہہ اہمیت کا حامل

بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ 'وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ لیہہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔'

وزیر اعظم مودی کا دورہ لیہہ اہمیت کا حامل
وزیر اعظم مودی کا دورہ لیہہ اہمیت کا حامل
author img

By

Published : Jul 5, 2020, 8:32 PM IST

Updated : Jul 5, 2020, 11:18 PM IST

وزیر اعظم اپنے کارناموں کے ذریعے قوم کو خوشگوار سرپرائیزز دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تین جولائی کو بھی یہی کچھ ہوا، جب ہم نے ٹیلی ویژن سکرین پر اچانک وزیر اعظم مودی کو لیہہ میں دیکھا۔ انہوں نے یہاں زخمی سپاہیوں کی عیادت کی، فوجی افسران سے صورتحال کے بارے میں جانکاری حاصل کی اور پر جوش تقریریں کیں۔ وزیر اعظم نے یہ اچانک دورہ ایک ایسے وقت میں کیا، جب مشرقی لداخ میں بھارت اور چینی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم کا یہ دورہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ایک ایسے خطے کا دورہ کرنا، جہاں فی الوقت فوجی تنازع پایا جا رہا ہے، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس بحران سے متعلق حکومت ہند بہت متحرک ہے۔ اس بحران سے متعلق پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حکومت اس کی اہمیت کم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اُمید تھی کہ فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ لیکن پندرہ جون کو گلوان میں خونین تصادم کی وجہ سے یہ اُمیدیں ختم ہو گئیں۔

میرے خیال سے اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چین کی جانب سے تازہ جارحیت ماضی کے اُن واقعات سے بالکل مختلف ہیں، جنہیں پُر امن طور پر اور دونوں فریقین کے اطمینان کے ساتھ حل نمٹایا گیا تھا۔ ایک جانب گزشتہ دو ماہ سے چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے مسلسل کہا جا رہا 'تنازع ہر ممکن حد تک کم کیا جائے گا اور امن و استحکام قائم کیا جائے گا'، لیکن دوسری جانب چین نے گلوان وادی پر اپنا حق جتلانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کی اور وہ اُن علاقوں میں اپنی بنیادیں مضبوط کر رہا ہے، جن علاقوں کو بھارت اپنا حصہ سمجھتا ہے۔

وزیر اعظم مودی کے لداخ دورے سے یہ عندیہ ملا ہے کہ دونوں طرفین کے درمیان بارت چیت کے عمل میں کوئی نتیجہ برآمد نہ ہونا، بھارت کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو معلوم تھا کہ اُن کے لداخ دورے پر چین اپنا ردعمل ظاہر کرے گا، جو کہ اس نے کیا بھی۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، 'کسی بھی فریق کو کوئی ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیے، جس سے صورتحال بگڑ جائے گی۔' وزیر اعظم کے دورے نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر کچھ حد تک تنائو پیدا ہو جانے کا احتمال ہے۔ وزیر اعظم نے تُند و تیز اور دو ٹوک تقریر کی۔ اُنہوں نے کہا، 'تاریخ گواہ ہے کہ توسیع پسندانہ قوتوں کی یا تو شکست ہوتی ہے یا پھر وہ واپس پلٹنے پر مجبور ہوئے ہیں'۔ اُن کا یہ کہنا کہ 'جو کمزور ہیں، وہ امن کی پہل نہیں کرسکتے ہیں'، ایک واضح اشارہ تھا کہ بھارت کمزور ہونے کی حیثیت میں بات چیت نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ملک کے عوام کو بھی مخاطب کیا۔ دراصل اُن کے اُس بیان کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چین کے فوجی بھارتی سرزمین پر نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے اب بھارت کے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ چین کی جانب سے بھارتی علاقے میں داخل ہو جانے کی کوششوں کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔ حکومت کا یہ عزم حال ہی میں اُس وقت بھی ظاہر ہوا تھا جب اس نے بجلی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں چینی کمپنیوں کی شرکت کے معاملے کا سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

بھارت کے عزائم واضح ہیں تاہم اس ضمن میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ بدقسمتی سے ٹیلی ویژن میڈیا کا ایک طبقہ اپنی سنسنی خیز سرخیوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہم نے چین پر پہلے بھاری فتح حاصل کر لی ہے۔ اس طرح کی غلط بیانی ہمارے لئے کئی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ چین کی افواج ابھی بھی اُس خطے میں موجود ہے، جسے ہم بھارتی حصہ مانتے ہیں اور وزیر اعظم نے اب یہ پیغام دیا ہے کہ ہم عزم کے ساتھ جواب دیں گے۔ ہم تناؤ کی جانب مزید ایک قدم بڑھ گئے ہیں اور تنائو کی جانب ہر قدم کے ساتھ خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جنگ کوئی یکطرفہ کھیل نہیں ہوتا ہے اور مخالف کے پاس بھی اپنے حربے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ توقع بھی رکھنی چاہیے کہ چین کی جانب سے بھی ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ چین لائن آف ایکچویل کنٹرول پر سخت گیری کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے اور تجارتی شعبے میں چین کے خلاف ہمارے اقدامات کا درعمل بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے یا پھر محدود فوجی کارروائی بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

ہمیں ایک طاقتور اور جارح ملک سے نمٹنے کے لئے فوجی سطح کی تیاریوں اور حکومت کی کارروائی میں ایک طویل عرصہ صرف کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں جذباتیت سے پرہیز کرتے ہوئے حقائق کا اندازہ کرنا ہوگا اور ہمارے فیصلوں اور مستقبل میں کئے جانے والے اقدامات کے نتائج کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ بھارت جب ہنگامی حالات سے نمٹ رہا ہے، چین کی حکومت کو بھی اپنے رویے کے نتائج کا احتساب کرنا چاہیے۔ کیتھل جے نولان نے اپنی کتاب 'دی الیور آف بیٹل' میں لکھتے ہیں کہ 'چھوٹی موٹی لڑائی اور جنگ میں جیت کو ایک جیسا سمجھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔' اُنہوں نے مزید لکھا ہے کہ 'لڑائی جیتنا ہی کافی نہیں ہوتا ہے۔ آپ کو مہم جیتنی ہوگی۔ لڑائی میں کامیابی کے نتیجے میں سیاسی جیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کچھ دیر بعد پھر لڑائی چھڑ سکتی ہے اور جاری رہ سکتی ہے۔'

چینی فوج کو لگ سکتا ہے کہ انہوں نے پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے میں فنگر چار تک کا علاقہ فتح کر لیا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں اس نے بھارت اور چین کے درمیان ایک دائمی تنائو پیدا کر دیا ہے۔ اس تنائو کے اس خطے کے سیاسی حالات پر اثرات مرتب ہو جائیں گے۔ اس کے آخر میں کیا نتائج برآمد ہونگے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ لیکن دونوں میں سے کسی بھی فریق کا اپنی فتح کا اعلان کرنا بے ایک حماقت ہوگی۔

وزیر اعظم اپنے کارناموں کے ذریعے قوم کو خوشگوار سرپرائیزز دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تین جولائی کو بھی یہی کچھ ہوا، جب ہم نے ٹیلی ویژن سکرین پر اچانک وزیر اعظم مودی کو لیہہ میں دیکھا۔ انہوں نے یہاں زخمی سپاہیوں کی عیادت کی، فوجی افسران سے صورتحال کے بارے میں جانکاری حاصل کی اور پر جوش تقریریں کیں۔ وزیر اعظم نے یہ اچانک دورہ ایک ایسے وقت میں کیا، جب مشرقی لداخ میں بھارت اور چینی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم کا یہ دورہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ایک ایسے خطے کا دورہ کرنا، جہاں فی الوقت فوجی تنازع پایا جا رہا ہے، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس بحران سے متعلق حکومت ہند بہت متحرک ہے۔ اس بحران سے متعلق پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حکومت اس کی اہمیت کم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اُمید تھی کہ فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ لیکن پندرہ جون کو گلوان میں خونین تصادم کی وجہ سے یہ اُمیدیں ختم ہو گئیں۔

میرے خیال سے اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چین کی جانب سے تازہ جارحیت ماضی کے اُن واقعات سے بالکل مختلف ہیں، جنہیں پُر امن طور پر اور دونوں فریقین کے اطمینان کے ساتھ حل نمٹایا گیا تھا۔ ایک جانب گزشتہ دو ماہ سے چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے مسلسل کہا جا رہا 'تنازع ہر ممکن حد تک کم کیا جائے گا اور امن و استحکام قائم کیا جائے گا'، لیکن دوسری جانب چین نے گلوان وادی پر اپنا حق جتلانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کی اور وہ اُن علاقوں میں اپنی بنیادیں مضبوط کر رہا ہے، جن علاقوں کو بھارت اپنا حصہ سمجھتا ہے۔

وزیر اعظم مودی کے لداخ دورے سے یہ عندیہ ملا ہے کہ دونوں طرفین کے درمیان بارت چیت کے عمل میں کوئی نتیجہ برآمد نہ ہونا، بھارت کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو معلوم تھا کہ اُن کے لداخ دورے پر چین اپنا ردعمل ظاہر کرے گا، جو کہ اس نے کیا بھی۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، 'کسی بھی فریق کو کوئی ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیے، جس سے صورتحال بگڑ جائے گی۔' وزیر اعظم کے دورے نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر کچھ حد تک تنائو پیدا ہو جانے کا احتمال ہے۔ وزیر اعظم نے تُند و تیز اور دو ٹوک تقریر کی۔ اُنہوں نے کہا، 'تاریخ گواہ ہے کہ توسیع پسندانہ قوتوں کی یا تو شکست ہوتی ہے یا پھر وہ واپس پلٹنے پر مجبور ہوئے ہیں'۔ اُن کا یہ کہنا کہ 'جو کمزور ہیں، وہ امن کی پہل نہیں کرسکتے ہیں'، ایک واضح اشارہ تھا کہ بھارت کمزور ہونے کی حیثیت میں بات چیت نہیں کرے گا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ملک کے عوام کو بھی مخاطب کیا۔ دراصل اُن کے اُس بیان کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چین کے فوجی بھارتی سرزمین پر نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نے اب بھارت کے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ چین کی جانب سے بھارتی علاقے میں داخل ہو جانے کی کوششوں کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔ حکومت کا یہ عزم حال ہی میں اُس وقت بھی ظاہر ہوا تھا جب اس نے بجلی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں چینی کمپنیوں کی شرکت کے معاملے کا سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

بھارت کے عزائم واضح ہیں تاہم اس ضمن میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔ بدقسمتی سے ٹیلی ویژن میڈیا کا ایک طبقہ اپنی سنسنی خیز سرخیوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہم نے چین پر پہلے بھاری فتح حاصل کر لی ہے۔ اس طرح کی غلط بیانی ہمارے لئے کئی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ چین کی افواج ابھی بھی اُس خطے میں موجود ہے، جسے ہم بھارتی حصہ مانتے ہیں اور وزیر اعظم نے اب یہ پیغام دیا ہے کہ ہم عزم کے ساتھ جواب دیں گے۔ ہم تناؤ کی جانب مزید ایک قدم بڑھ گئے ہیں اور تنائو کی جانب ہر قدم کے ساتھ خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جنگ کوئی یکطرفہ کھیل نہیں ہوتا ہے اور مخالف کے پاس بھی اپنے حربے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں یہ توقع بھی رکھنی چاہیے کہ چین کی جانب سے بھی ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ چین لائن آف ایکچویل کنٹرول پر سخت گیری کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے اور تجارتی شعبے میں چین کے خلاف ہمارے اقدامات کا درعمل بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے یا پھر محدود فوجی کارروائی بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

ہمیں ایک طاقتور اور جارح ملک سے نمٹنے کے لئے فوجی سطح کی تیاریوں اور حکومت کی کارروائی میں ایک طویل عرصہ صرف کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں جذباتیت سے پرہیز کرتے ہوئے حقائق کا اندازہ کرنا ہوگا اور ہمارے فیصلوں اور مستقبل میں کئے جانے والے اقدامات کے نتائج کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ بھارت جب ہنگامی حالات سے نمٹ رہا ہے، چین کی حکومت کو بھی اپنے رویے کے نتائج کا احتساب کرنا چاہیے۔ کیتھل جے نولان نے اپنی کتاب 'دی الیور آف بیٹل' میں لکھتے ہیں کہ 'چھوٹی موٹی لڑائی اور جنگ میں جیت کو ایک جیسا سمجھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔' اُنہوں نے مزید لکھا ہے کہ 'لڑائی جیتنا ہی کافی نہیں ہوتا ہے۔ آپ کو مہم جیتنی ہوگی۔ لڑائی میں کامیابی کے نتیجے میں سیاسی جیت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کچھ دیر بعد پھر لڑائی چھڑ سکتی ہے اور جاری رہ سکتی ہے۔'

چینی فوج کو لگ سکتا ہے کہ انہوں نے پینگانگ جھیل کے شمالی کنارے میں فنگر چار تک کا علاقہ فتح کر لیا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں اس نے بھارت اور چین کے درمیان ایک دائمی تنائو پیدا کر دیا ہے۔ اس تنائو کے اس خطے کے سیاسی حالات پر اثرات مرتب ہو جائیں گے۔ اس کے آخر میں کیا نتائج برآمد ہونگے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ لیکن دونوں میں سے کسی بھی فریق کا اپنی فتح کا اعلان کرنا بے ایک حماقت ہوگی۔

Last Updated : Jul 5, 2020, 11:18 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.