ETV Bharat / state

لداخ پارلیمانی نشست کی سیاسی بساط کو آپ کتنا سمجھتے ہیں؟

ریاست جموں وکشمیر کی سیاست کو سمجھنے کے لیے لداخ کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے کئ سوالوں کے جوابات لداخ پارلیمانی نشست کی سیاست میں پوشیدہ ہو۔

author img

By

Published : May 5, 2019, 12:08 AM IST

Updated : May 5, 2019, 11:23 AM IST

ریاست جموں وکشمیر کی سیاست کو سمجھنے کے لیے لداخ کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے

لداخ پارلیمانی نشست رقبہ کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی جبکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹی پارلیمانی نشست ہے۔

عام انتخابات 2019 کے لیے اس سیٹ پر پانچویں مرحلے پانچویں مرحلے میں 6 مئی کو پولنگ ہوگی۔

قدرتی حسن اور دلکش مناظر سے مالامال لداخ کی کل آبادی تقریبا 3 لاکھ ہے، جبکہ ووٹرز کی کُل تعداد 1 لاکھ 76 ہزار 6 سو اٹھارہ ہے۔ ان ووٹرز کی حق رائے دہی کے لیے 559 پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر کی سیاست کو سمجھنے کے لیے لداخ کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے

ایک لاکھ 76 ہزار 6 سو اٹھارہ وٹرز میں 86752 مرد ہیں جبکہ 85064 خواتین ووٹرزہیں 3 ووٹرز تیسری صنف (ٹرانسجنڈر) سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں 2799 سروس ووٹرز ہیں۔

بلند ترین دروں پر بسی اس آبادی میں چار امیدوار اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جن میں انڈین نیشنل کانفرنس کے رگزن سپالبار، بی جے پی کے چھرینگ نمگیال، آزاد امیدوار اصغر علی کربلائی اور سجاد حسین شامل ہیں۔

لداخ پارلیمانی سیٹ دو اضلاع لیہہ اور کرگل پر مشتمل ہے۔ لیہہ میں بودھوں کی جبکہ کرگل میں مسلمانوں اکثریت ہے۔ مجموعی طور پر پورے صوبے میں مسلم آبادی زیادہ ہے۔

ایک پولنگ مرکز چھن تھانگ علاقے کے انلے پھو گاؤں میں قائم کیا گیا ہے جو سطح سمندر سے 15 ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے، جبکہ نوبرا کے واشی اور لیہہ کے گائک گاؤں میں 7 ووٹرز کے لیے الگ الگ پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

لداخ پارلیمانی نشست چار اسمبلی حلقے لیہہ، نوبرا، کرگل اور زانسکارپر مشتمل ہے۔

سنہ 2014 کے عام انتخابات پر نظر ڈالیں تو اس پارلیمانی نشست پر بہت سخت مقابلہ ہوا تھا بی جے پی کے امیدوار تھوپستن چیوانگ نے آزاد امیدوار غلام رضا کو محض 36 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
اور بی جے پی کو پہلی بار اس نشست پر کامیابی ملی۔

چیوانگ، علیحدگی پسند تحریک کے بانی ہیں۔ انہوں نے 1989 میں جموں و کشمیر سے علیحدگی کی پرتشدد مہم کی قیادت کی تھی۔ اس مہم کے دوران لیہہ قصبے سے کشمیری تاجروں کو بے دخل کیا گیا تھا جبکہ مقامی مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔

چیوانگ نے لداخ یونین ٹریٹری فرنٹ نامی پارٹی قائم کی تھی جو بعد میں بی جے پی میں ضم ہو گئی۔

سنہ 1994 میں جب لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تو چیوانگ اس کے پہلے چیف ایگزیکٹیو کونسلر بن گئے۔
مودی حکومت کی جانب سے یونین ٹریٹری کے مطالبے کو نظر انداز کیے جانے کے بعد بی جے پی کے بارے میں لیہہ کی قیادت کا نظریہ بدل گیا۔ چیوانگ نے لوک سبھا اور بی جے پی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس سے ترغیب پاکے بی جے پی کے پوری لیہہ یونٹ اور ترقیاتی کونسل کے کونسلروں نے بھی استعفیٰ دے دیا۔

عام انتخابات میں بی جے پی نے اس پارلیمانی سیٹ سے جے چھرینگ نمگیال کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد گورنر ستیہ پال ملک نے لداخ کو علحیدہ صوبہ بنانے کا فیصلہ لیا جو بودھ اکثریتی ضلع لیہہ کی دیرینہ مانگ تھی۔

سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ گورنر کے اس فیصلے سے بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

کانگریس امیدوار سپلبار نے اپنے سیاسی ایجنڈے میں کہا ہے کہ'' جس طرح بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے لداخ کو نطر انداز کیا ہے ہم اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے جبکہ وہ اس ڈیوژن کو نئی دہلی کے مزید قریب لائیں گے''۔

ضلع کرگل سے تعلق رکھنے والے اصغر علی کربلائی کانگریس کے باغی رہنما ہیں، وہ آزاد امیدوار کے طور پر اس پارلیمانی نشست سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سماجی کارکُن سجاد حسین بھی اس بار آزادانہ طور پر انتخابی میدان میں ہیں۔ دونوں کو سماجی و مذہبی تنظیموں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دونوں مسلم امیدواروں کے میدان میں اترنے کی وجہ سے مسلم رائے دہندگان کے ووٹز تقسیم ہو سکتے ہیں۔
مسلم ووٹ کی تقسیم سے کس امیدوار کو فائدہ پہنچتا ہے یہ نتائج کے دن 23 مئی کو ہی سامنے آئے گا۔

لداخ پارلیمانی نشست رقبہ کے اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی جبکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹی پارلیمانی نشست ہے۔

عام انتخابات 2019 کے لیے اس سیٹ پر پانچویں مرحلے پانچویں مرحلے میں 6 مئی کو پولنگ ہوگی۔

قدرتی حسن اور دلکش مناظر سے مالامال لداخ کی کل آبادی تقریبا 3 لاکھ ہے، جبکہ ووٹرز کی کُل تعداد 1 لاکھ 76 ہزار 6 سو اٹھارہ ہے۔ ان ووٹرز کی حق رائے دہی کے لیے 559 پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر کی سیاست کو سمجھنے کے لیے لداخ کی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے

ایک لاکھ 76 ہزار 6 سو اٹھارہ وٹرز میں 86752 مرد ہیں جبکہ 85064 خواتین ووٹرزہیں 3 ووٹرز تیسری صنف (ٹرانسجنڈر) سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں 2799 سروس ووٹرز ہیں۔

بلند ترین دروں پر بسی اس آبادی میں چار امیدوار اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں، جن میں انڈین نیشنل کانفرنس کے رگزن سپالبار، بی جے پی کے چھرینگ نمگیال، آزاد امیدوار اصغر علی کربلائی اور سجاد حسین شامل ہیں۔

لداخ پارلیمانی سیٹ دو اضلاع لیہہ اور کرگل پر مشتمل ہے۔ لیہہ میں بودھوں کی جبکہ کرگل میں مسلمانوں اکثریت ہے۔ مجموعی طور پر پورے صوبے میں مسلم آبادی زیادہ ہے۔

ایک پولنگ مرکز چھن تھانگ علاقے کے انلے پھو گاؤں میں قائم کیا گیا ہے جو سطح سمندر سے 15 ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے، جبکہ نوبرا کے واشی اور لیہہ کے گائک گاؤں میں 7 ووٹرز کے لیے الگ الگ پولنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

لداخ پارلیمانی نشست چار اسمبلی حلقے لیہہ، نوبرا، کرگل اور زانسکارپر مشتمل ہے۔

سنہ 2014 کے عام انتخابات پر نظر ڈالیں تو اس پارلیمانی نشست پر بہت سخت مقابلہ ہوا تھا بی جے پی کے امیدوار تھوپستن چیوانگ نے آزاد امیدوار غلام رضا کو محض 36 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
اور بی جے پی کو پہلی بار اس نشست پر کامیابی ملی۔

چیوانگ، علیحدگی پسند تحریک کے بانی ہیں۔ انہوں نے 1989 میں جموں و کشمیر سے علیحدگی کی پرتشدد مہم کی قیادت کی تھی۔ اس مہم کے دوران لیہہ قصبے سے کشمیری تاجروں کو بے دخل کیا گیا تھا جبکہ مقامی مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔

چیوانگ نے لداخ یونین ٹریٹری فرنٹ نامی پارٹی قائم کی تھی جو بعد میں بی جے پی میں ضم ہو گئی۔

سنہ 1994 میں جب لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تو چیوانگ اس کے پہلے چیف ایگزیکٹیو کونسلر بن گئے۔
مودی حکومت کی جانب سے یونین ٹریٹری کے مطالبے کو نظر انداز کیے جانے کے بعد بی جے پی کے بارے میں لیہہ کی قیادت کا نظریہ بدل گیا۔ چیوانگ نے لوک سبھا اور بی جے پی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس سے ترغیب پاکے بی جے پی کے پوری لیہہ یونٹ اور ترقیاتی کونسل کے کونسلروں نے بھی استعفیٰ دے دیا۔

عام انتخابات میں بی جے پی نے اس پارلیمانی سیٹ سے جے چھرینگ نمگیال کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد گورنر ستیہ پال ملک نے لداخ کو علحیدہ صوبہ بنانے کا فیصلہ لیا جو بودھ اکثریتی ضلع لیہہ کی دیرینہ مانگ تھی۔

سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ گورنر کے اس فیصلے سے بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

کانگریس امیدوار سپلبار نے اپنے سیاسی ایجنڈے میں کہا ہے کہ'' جس طرح بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے لداخ کو نطر انداز کیا ہے ہم اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے جبکہ وہ اس ڈیوژن کو نئی دہلی کے مزید قریب لائیں گے''۔

ضلع کرگل سے تعلق رکھنے والے اصغر علی کربلائی کانگریس کے باغی رہنما ہیں، وہ آزاد امیدوار کے طور پر اس پارلیمانی نشست سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سماجی کارکُن سجاد حسین بھی اس بار آزادانہ طور پر انتخابی میدان میں ہیں۔ دونوں کو سماجی و مذہبی تنظیموں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دونوں مسلم امیدواروں کے میدان میں اترنے کی وجہ سے مسلم رائے دہندگان کے ووٹز تقسیم ہو سکتے ہیں۔
مسلم ووٹ کی تقسیم سے کس امیدوار کو فائدہ پہنچتا ہے یہ نتائج کے دن 23 مئی کو ہی سامنے آئے گا۔

Intro:Body:

news

Conclusion:
Last Updated : May 5, 2019, 11:23 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.