بھارتی فوج کے ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ "جنرل نروانے کل لداخ گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ایل اور سی کا جائزہ لیا اور 14 کارپس میں موجود افسران سے ملاقات بھی کی جس کے بعد وہ واپس دہلی روانہ ہوئے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ " دونوں ممالک کے فوجی اس وقت صبر اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حالات قابو میں رہیں اور تناؤ ختم ہو جائے۔
قابل ذکر ہے کہ جمرات کو بھارت نے چین کے تمام دعوے غلط قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "بھارتی فوجی اہلکاروں نے سرحد پر تناؤ پیدا نہیں کیا۔ وہ نہ تو لداخ میں اور نہ ہی سکم میں چین کے زیر انتظام علاقے میں گھسے۔ تاہم چین کے فوجی ہی ہمارے فوجی جوانوں کو اپنے روز مرہ کے حفاظتی عمل میں رکاوٹیں کھڑا کرتے ہیں'۔
وہیں رواں ماہ کی پانچ اور 6 کی درمیانی رات کو چین نے لداخ کی گلوان وادی میں مزید فوجی اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔ یہ پانچ تاریخ کو دونوں ممالک کے درمیان پنگونگ میں ہوئے تناؤ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ 5 اور 6 مئی کی درمیانی شب دونوں ممالک کے متعدد فوجی کی پینگونگ تس کے قریب جھڑپ ہوئی اور اس جھڑپ میں چند فوجی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع موصول ہوئی۔
فوج کے مطابق جھڑپ میں تقریباً 250 فوجی جوان شامل تھے۔ تاہم جتنی دونوں ممالک کی افواج صورت حال کو حل کرنے کے لیے پروٹوکول پر قائم ہے۔ اس دوران تناؤ وادی گالان سمیت مشرقی لداخ کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گیا۔