سرینگر: جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کشتواڑ میں مدرسہ کو اپنے قبضے میں لینے کے حکومتی آرڈر کو منسوخ کر دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ سال جاری کردہ حکم نامہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کے تمام مدارس پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ہائی کورٹ کے جسٹس سنجیو کمار نے ایک عرضی پر سماعت کے دوران یہ فیصلہ سنایا۔ عرضی میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کشتواڑ کے 3 جولائی کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں انہوں نے چیریٹیبل ایجوکیشن ٹرسٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان مدارس کا قبضہ فوری طور پر انتظامیہ کے حوالے کرے۔‘‘
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’’یہ یکطرفہ حکم فریق کو سنے بغیر جاری کیا گیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔‘‘ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’’بھٹنڈی، جموں میں مولانا علی میاں ایجوکیشنل ٹرسٹ غیر ملکی اداروں سے ملنے والے فنڈز کا غلط استعمال کر رہا ہے، جس کی وجہ سے ڈویژنل کمشنر جموں نے گزشتہ سال 14 جون کو ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ٹرسٹ کا انتظام سنبھال لیا، لیکن اس سے اس مدرسہ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘
حکومتی وکیل نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹرسٹ مولانا علی میاں ایجوکیشنل ٹرسٹ سے مختلف ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ غیر قانونی فنڈنگ کی تحقیقات ایک عمل ہے اور انتظامیہ ایسی کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہے کہ کہیں کوئی مدرسہ ملک دشمن سرگرمیوں یا فنڈز کے غلط استعمال میں ملوث تو نہیں۔ اس پر ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’ڈویژنل کمشنر جموں کا حکمنامہ صرف مولانا علی میاں ایجوکیشنل ٹرسٹ پر لاگو ہے اور جموں و کشمیر کے تمام مدارس پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ اس بنیاد پر ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کشتواڑ کے جاری کردہ حکمنامہ کو کالعدم قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں: Jammu Admin Takes over Islamic School صوبائی کمشنر کو میمورنڈم پیش، حکمنامہ واپس لینے کی اپیل
تاہم ہائی کورٹ نے یہ واضح کیا کہ اگر درخواست گزاروں کے ذریعے چلائے جانے والے مدارس کسی بھی ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں یا کسی تحقیقات میں غیر قانونی سرگرمیوں کے مرتکب پائے جاتے ہیں تو انتظامیہ کارروائی کرنے کے لئے آزاد ہے۔