وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے آج اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ کیرالا کے تراونکور دیوسوم بورڈ کے انتظام و انصرام کے زیر اہتمام اسکولوں میں عربی زبان کے اساتذہ کی تقرری کی جا رہی ہے۔
وی ایچ پی کے رہنما آلوک کمار نے کہا 'عربی ایک بھارتی زبان نہیں ہے۔ یہ بھارت کے آئین میں بھارتی زبانوں کی شیڈول میں بھی نہیں ہے۔ پاک قران مجید کو پڑھنے، سمجھنے اور یاد رکھنے کے لیے اس زبان کو زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ بالآخر عربی زبان کی تعلیم ہندوؤں کے مذہب اور مذہبی مقصد کے لیے نہیں ہے۔ ہندو زائرین کی جانب سے مندوروں میں عطیہ کی گئی رقم سے چلنے والے اسکولوں میں عربی کی تعلیم غیر مناسب خرچ ہے'۔
تراونکور دیوسوم بورڈ کی تشکیل کوچین ہندو مذہبی ادارے قانون 1950 کے تحت کیا گیا ہے۔ اس بورڈ میں تین رکن ہیں جن میں سے دو کیرالا حکومت کے کابینہ کے ہندو اراکین اور تیسرا رکن کیرالہ اسمبلی کے ہندو اراکین کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ تینوں ہی رکن ریاست کی بر سر اقتدار پارٹی کی جانب سے نامزد ہیں۔
وی ایچ پی کے رہنما نے یہ بھی کہا 'یہ بائیں بازو کی حکومت کی جانب سے نامزد اراکین کی جانب سے ہندوؤں پر کیا گیا ایک اور حملہ ہے۔ ہندوؤں کی ذریعے اپنے اِشٹ دیوی۔دیوتاؤں کو چڑھائی گئی رقم عربی زبان کی تعلیم کے لیے استعمال کی جائے گی۔ یہ قابل قبول نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیے
جانیے، حج کیسے ادا کیا جاتا ہے؟
انہوں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے بورڈ سے اسے واپس لینے اور کیرالہ کے عوام سے اس کی زبردست مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے۔
مسٹر کمار نے کہا 'سنسکرت زبان برسوں کی روایت میں بھارتی روایتوں میں حاصل بھارتی روحانی ورثے کا انمول ذخیرہ ہے اور اس کی تعلیم تراون کور دیوسوم بورڈ کی جانب سے چلائی جانے والی اسکولوں میں لازم قرار دیا جانا چاہیے'۔