سپریم کورٹ کی نو رکنی آئینی بنچ نے پیر کو واضح کیا ہے کہ وہ صرف سبری مالا مندر میں سبھی عمر کی خواتین کے داخلے کے مسئلہ پر ہی نہیں بلکہ مسلم اور پارسی خواتین کے مذہبی حقوق پر بھی غوروفکر کرے گی۔
چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے کی صدارت والی 9 رکنی آئینی بنچ نے کہا ہے وہ انہیں مسئلوں پر سماعت طے کرے جو 14 نومبر 2019 کو پانچ رکنی بنچ نے اسے سپرد کیا تھا۔ ان میں خواتین کا مندر اور مسجد، پارسی خواتین کو اگیاری میں داخلے اور داؤدی بوہرہ میں خواتین کے ختنہ جیسے مسائل شامل ہیں۔
مختلف مذاہب کے مذہبی رسم و رواجوں پر خواتین کے ساتھ ہورہی تفریق کے معاملے میں عدالت دخل دے سکتی ہے یا نہیں، اس پر بھی غوروفکر کیا جائے گا۔ معاملے کی اگلی سماعت 3 ہفتہ بعد ہوگی۔
چیف جسٹس نےکہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی سماعت میں زیادہ وقت برباد ہو، اس لئے معاملے میں ٹائم لائن طے کرنا چاہتے ہیں۔ سبھی وکلاء آپس میں طے کرکے بتائے کہ جرح اور دلیلوں میں کتنا وقت لگے گا۔
جسٹس بوبڈے نے کہا ہے کہ اس معاملے پر مزید سماعت کن سوالات پر ہوگی، کون وکیل کس مسئلہ پر بحث کرے گا، اس لئے عدالت کے جنرل سکریٹری 17 جنوری کو سبھی وکیلوں سے میٹنگ کرکے ایک وقت طے کریں گے۔ میٹنگ میں طے کیا جائے گا کہ اس مسئلہ پر کون وکیل دلیل دے گا۔
آئینی بنچ میں جسٹس آر بھانومتی، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ایل ناگیشور راؤ، جسٹس ایم ایم شانتن گوڈر، جسٹس ایس اے نذیر، جسٹس آر سبھاش ریڈی، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔
واضح رہے کہ 28 ستمبر 2018 کو ایک آئینی بنچ نے 10 سے 50 سال کی عمر کی خواتین کو سبری مالا میں واقع بھگوان ایپا مندر میں داخل نہ ہونے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سبھی عمر کی خواتین کے لئے مندر کے دروازے کھول دیئے تھے۔ اس کے بعد 60 نظرثانی کی عرضیاں اس فیصلے کے خلاف داخل کی گئی تھیں جنہیں گزشتہ 14 نومبر کو بڑی بنچ کو سونپ دی گئی تھیں۔