بیدر: الامین اردو گرلز ہائی اسکول بیدر اور کلیان کرناٹک اردو جرنلسٹس ایسوسی ایشن بیدر کی جانب سے علاقہ کلیان کرناٹک کے 371(J) کی جہدکار، اردو شخصیت، معروف صحافی، محقق اور مورخ ڈاکٹر ماجد داغی کی شال پوشی کی گئی اور گلپوشی کے ذریعہ تہنیت پیش کی گئی۔ اس موقع پر انھوں نے الامین اردو گرلز ہائی اسکول کی طالبات اور معلمات سے الامین محمد اکرام الدین میموریل ہال میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 371j کے لیے میں نے لکشمن دستی کے ساتھ جن پراسنگھرش سمیتی کے بیانر تلے اس وقت کی ریاستی بی جے پی حکومت اور مرکز کی یوپی اے II حکومت سے نمائندگی کی۔ ڈاکٹر این دھرم سنگھ اور مرکزی وزیر محنت ڈاکٹر ملیکارجن کھرگے نے الیکشن کے پیش نظر انتہائی قلیل مدت میں دفعہ 371 (J) کو پارلیمنٹ میں پاس کرایا اور اسی تیزی کے ساتھ صدر جمہوریہ نے اس بل پر دستخط بھی کیے۔ 371 (J) کی بدولت علاقہ کلیان کرناٹک (بیدر، گلبرگہ، یادگیر، رائچور، کپل، بلاری، وجے نگر اضلاع) کے شہریوں کو 80 فیصد تعلیمی نشستیں اور 80 فیصد ملازمتیں ان ہی کے مذکورہ اضلاع میں ملتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کرناٹک اردو اکیڈمی کا چیئرمین نامزد کرنے کی اپیل
ڈاکٹر ماجد داغی نے ”اردو زبان اور اردو ادب کا تحفظ “ عنوان پر طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ زبانیں اظہار خیال کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ دنیا کی سب سے کم عمر زبان اردو ہے۔ بین الاقوامی مستند اداروں کا کہنا ہے کہ انتہائی کم عمری کے باوجود اردو زبان دنیا کی تیسری زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ اگر اس کی تیز رفتاری کا یہی عالم رہا تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا کی پہلی یا پھر دوسری تیز رفتار زبان بن جائے گی۔ سیاسی طور پر لوگ بھلے ہی کچھ کہتے ہوں، لیکن اردو زبان آگے بڑھ رہی ہے۔ موصوف نے میر عثمان علی بادشاہ کے والد محترم میر محبوب علی شاہ کی تاریخی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے دکن میں میر محبو ب علی خان صاحب (بادشاہ ِ وقت ) نے حیدرآباد میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا۔ جب کہ یہ سلسلہ آگے بڑھا تو ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے ”عثمانیہ یونیورسٹی “ قائم کی جس کا ذریعۂ تعلیم اردو قرار دیا گیا۔ اسی عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو ادب کے علاوہ طب، انجینئرنگ اور ٹکنالوجی اردو زبان میں پڑھائی گئی۔ آج بھی اعلیٰ تعلیم اردو زبان میں حاصل کرنے کا نظم اگر چاہیں تو ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر ماجد داغی نے کہا کہ حصول ِ تعلیم محنت کا متقاضی ہے۔ اردو زبان کو نئے راستوں سے فروغ دینے کا بھرپور موقع ہندوستان میں موجود ہے۔ داغی نے طالبات اور معلمات کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ MANUU اور آندھرا پردیش کی ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی سے استفادہ کرنے کو کہا۔ سینئر صحافی جناب محمد شجاع الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو طلبہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ ترقی کرتے ہیں۔ آج لڑکیوں کا اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنا بےحد ضروری ہے۔ موصوف نے اردو اسکول میں پڑھانے والے معلم ومعلمات سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم سے تعلیم دلارہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اردو زبان ہی ختم ہوجائے۔ لہٰذا اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھائیں۔ انھوں نے الامین کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی صحافی محمد یوسف رحیم بیدری کی کاوشوں کو بھی سراہا۔
اس تقریب کی صدارت کرتے ہوئے معروف شاعر وادیب اور صحافی محمد یوسف رحیم بیدری نے کہا کہ جو طالبات دہم جماعت کے بعد اپناتعلیمی سفر اردو زبان میں جاری رکھنا چاہتی ہوں ان کے لیے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے پالی ٹیکنک کالج، بی ایڈ اور دیگر میدانوں میں اردو سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر ہے۔ موصوف نے نئی ٹیکنالوجی (مصنوعی ذہانت ) سے طالبات اور معلمات کو بچنے اور کسی ناگہانی واقعہ پر کوئی غلط قدم نہ اٹھانے کی تلقین کی اور کہا کہ ڈیپ فیک ٹکنالوجی کا اگر خوانخواستہ شکار ہوجائیں تو اس کے خلاف فوری اقدام اٹھائیں، ہرگز نہ گھبرائیں۔ اور خود کو کسی مشکل میں نہ ڈالیں۔
موصوف نے طالبات اور اولیائے طلبہ سے کہا کہ نیواجوکیشن پالیسی NEP میں مادری زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں۔ اس کو استعمال کیا جانا چاہے۔ اس موقع پر طالبات کے سامنے ڈاکٹر ماجد داغی نے ”دخترکشی“ کے خلاف اور محمد یوسف رحیم میر بیدری نے ”جنگ“ کے خلاف اپنا اپنا کلام پیش کیا جس کو طالبات نے کافی پسند کیا۔ یوسف رحیم بیدری نے ابتداء میں ڈاکٹر ماجد داغی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماجد داغی گزشتہ 22 سال سے پیشۂ تدریس سے وابستہ ہیں۔ اور گلبرگہ یونیورسٹی کلبرگی میں سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی 9 کتابوں میں سے ایک کو قومی اور دو کتابوں کو ریاستی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔ 5 کتابیں تحقیق، تنقید اور شاعری سے متعلق ہیں۔ 70 سے زائد ریڈیو ٹاک اور انٹرویوز ہیں جب کہ 25 بین الاقوامی، قومی اور ریاستی کانفرنسیس میں انھوں نے شرکت کی ہے۔ 10 سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں اپنی خدمات دیتے ہیں۔ کلیان کرناٹک اتہاس رچنا سمیتی کے رکن بھی ہیں۔
تقریب کا آغاز عفیفہ عالیہ (دہم جماعت) کی طالبہ کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ عفیفہ صدیقہ (ہشتم جماعت) نے نعت شریف پیش کرکے سماں باندھ دِیا۔ دہم کی طالبہ سمیر انجم نے اقبال اشہر کی نظم ”اردو ہے میرا نام“ پیس کیا۔ تینوں طالبات کو محمد یوسف رحیم بیدری کی کتابیں تحفہ میں پیش کی گئیں۔ صدر معلمہ محترمہ عفت آراء نے اظہار تشکر کیا۔ اس تقریب میں صدر معلمہ کے علاوہ معاون معلمات عابدہ بیگم، آمنہ تبسم، ام رومان، شہناز پروین، شافعہ فرحین، زیبا تہنت اور تحسین بیگم موجود رہیں۔