بیدر: کرناٹک کے بیدر شہر کے فیض پورہ میں واقع ایس کے فنکشن ہال میں شاہین ادارہ جات بیدر کی جانب سے خواتین و طالبات کا ایک دینی اجتماع کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس اجتما ع میں فیض پورہ اور اس کے اطراف و اکناف و دیگر علاقوں سے خواتین و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن کی خواتین اسٹیٹ کنوینر برائے شمالی کرناٹک بلقیس فاطمہ نے اپنے پُر اثر و پُر مغز خطاب میں کہا کہ قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی جو ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں حصول علم کا ہی حکم ہے اور یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کی امت کے ہر فرد کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ علم زندگی کا نور ہے۔ تمام بھلائیوں، عظمتوں، بلندیوں اور شرف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔ علم ہی سے انسان اپنا دین، اپنی دنیا اور اپنے حقیقی مقصد کو پہچانتا ہے۔ زندگی کی بہت سی مشکلات ہم علم کے ذریعہ ختم کرتے ہیں۔ علم ہی کے ذریعہ ہم اپنے اندر کی چیزوں کو تنقیدی زاویہ سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ علم ہماری زندگیوں میں خوشیاں لاتا ہے، علم زندگی کے ہر موڑ پر ہماری مدد کرتا ہے اور علم کا سب سے بڑا فائدہ ہماری زندگی میں یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔ علم اس گھر کو بھی رفعت بخشتا ہے جس کے پائے نہ ہوں اور جہالت عزت و شرف والے مکان کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی سعادت کی بنیاد علم ہے۔
انھوں نے کہا کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ“ اور حدیث مبارکہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا۔ والدین اور سرپرست حضرات اپنے نونہالوں اور افراد خاندان کی تربیت کا خاص اہتمام کریں تاکہ اپنے آپ کو اور افراد خاندان کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ سکیں۔
بلقیس فاطمہ نے مزید کہا کہ نوجوان نسل کی دینی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں بچوں کو اخلاقی بگاڑ اور سماجی خرافات سے بچانے کے لئے دینی تربیت کو لازمی بنائیں کیونکہ دینی فکر سے انسان اچھے اور برے میں تمیز کے لائق بنتا ہے۔موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان نسل بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔سوشل میڈیا کی جانب سے اخلاقی بگاڑ کے علاوہ بچے مذہب سے متنفر ہونے لگے ہیں۔فیس بک،واٹس ایپ کی لعنت بچوں اور بڑوں سے نشے کی لت کی طرح چمٹ گئی ہے۔ پب جی ایک کالا جادو ہے جس سے نوجوان نسل تباہ ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھ رہے ہیں۔ انھو ں نے کہا کہ اپنے خاندان میں، بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک مناسب اور غیر معقول طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کیلئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔ بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے، تاکہ ملک وملت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے، اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا۔گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔
مزید پڑھیں:
Al Husaini Noor Al Qamar Madrasa الحسینی نورالقمر مدرسہ کا افتتاح
انہوں نے والدین کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماں باپ کو چاہئے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول، ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔ بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کے لیے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کے لیے بچوں میں شوق، محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ وقت کی تنظیم اور قدر والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہئے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تا دیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل، انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔پروگرام کا آغاز قراء تِ کلام پاک ہوا۔نظامت کے فرائض محترمہ بلقیس فاطمہ صاحبہ نے بحسن خوبی انجام دئیے۔اور استقبالیہ کلمات بھی ادا کئے۔پروگرام میں شاہین ادارہ جات کے ڈائریکٹرس محترمہ مہر سلطانہ و ذکیہ بیگم صاحبہ موجود تھی۔ دعا کے بعد پروگرام کا اختتام عمل آیا۔