گلبرگہ: گلبرگہ کے ممتاز سماجی کارکن و نائب صدر ضلع وقف مشاورتی کمیٹی حیدر علی باغبان نے مرکزی حکومت سے مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسں میں مرکزی حکومت نے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقہ میں اتنا زہر بھر دیا ہے کہ عوامی منتخبہ نمائندے تک اس زہر سے محفوظ نہیں ہیں۔ دو دن قبل بی جے پی ایم پی رمیش بدھوری نے لوک سبھا میں ایک مسلم ایم پی کنور دانش علی کے لیے جس طرح کے نا زیبا الفاظ کا استعمال کیا، اس کی یہ ایک مثال ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کی مندر میں بیٹھ کر جب بی جے پی کا ایک عوامی منتخبہ نمائندہ دوسرے مسلم عوامی منتخبہ نمائندے کے خلاف اس طرح سے پر تشدد الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو پھر ایک عام ہندوتواوادی شخص ایک عام مسلمان کے تعلق سے کیا سوچ رکھتا ہوگا۔ ایم پی بھدوری نے لوک تنتر کے مندر میں منو سمرتی کی ترجمانی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
حیدر علی باغبان نے حکومت سے سوال کیا کہ اس طرح کے بیانات سے وہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا مندر بھی اب نفرت کا بازار بن گیا ہے؟ پارلیمنٹ کے اندر بھی ملک کے مسلمان اب محفوظ نہیں ہیں؟ ہندوتواوادی طاقتیں کھلے عام جمہوریت کی دھجیاں اڑا رہی ہیں؟اس معاملے پر وزیر اعظم مودی سے اپنا موقف بھی واضح کرنے کا مطالبہ کیا بصورت دیگر بھدوری کے موقف کو ہی پی ایم مودی کا موقف سمجھا جائے گا۔ ساتھ ہی انھوں نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے، بی جے پی ایم پی رمیش بھدوری کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سے بھدوری کے خلاف مطلوبہ قانونی کارروائی نہیں کی گئی تو اس طرح کی ہندوتواوادی طاقتوں کو شہ ملے گی اور ان کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ سڑکوں، گلیوں، محلوں، دیہاتوں، گاؤں، شہروں میں بازاروں میں مسلمانوں کی اسی طرح سے کردار کشی کرتے رہیں گے۔ جس کی وجہ سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب داغدار ہو گی۔ ملک کی جمہوریت کمزور ہوگی عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی سیکولر شبیہ متاثر ہوگی۔
اس موقع حیدر علی باغبان نے مسلمانوں کی تمام نمائندہ تنظیموں سے بھی آگے آنے کا مطالبہ کیا اور کنور دانش علی کا ساتھ دینے پی اپیل کی۔ انھوں نے اس معاملے میں ملک کے دانشور طبقہ اور جمہوریت نواز سیکولر طبقات، سیکولر سیاسی جماعتوں کو بھی کھل کر سامنے آنے کی اپیل کی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اگر اس موقع پر سیکولر طاقتیں خاموش رہتی ہیں تو پارلیمنٹ میں اس طرح کے غیر جمہوری و غیر پارلیمانی الفاظ معمول کا حصہ بن جائیں گے۔